ہر ذرے پہ فضل کبریا ہوتا ہے
ہر ذرے پہ فضل کبریا ہوتا ہے اک چشم زدن میں کیا سے کیا ہوتا ہے اصنام دبی زباں سے یہ کہتے ہیں وہ چاہے تو پتھر بھی خدا ہوتا ہے
ممتاز شاعر،اصناف سخن میں رباعی کے لیے مشہور
Prominent poet, known for his Rubaai
ہر ذرے پہ فضل کبریا ہوتا ہے اک چشم زدن میں کیا سے کیا ہوتا ہے اصنام دبی زباں سے یہ کہتے ہیں وہ چاہے تو پتھر بھی خدا ہوتا ہے
کچھ وقت سے ایک بیج شجر ہوتا ہے کچھ روز میں ایک قطرہ گہر ہوتا ہے اے بندۂ نا صبور تیرا ہر کام کچھ دیر میں ہوتا ہے مگر ہوتا ہے
اصلیت اگر نہیں تو دھوکا ہی سہی اللہ بہت نہیں تو تھوڑا ہی سہی تسکین کی آخر کوئی صورت بھی تو ہو رویت ممکن نہیں تو رویا ہی سہی
جو معنی مضموں ہے وہی عنواں ہے واجب ہی میں ایک صورت امکاں ہے محشر ہو کہ قبر زندگی ہو کہ ہو موت جو یاں ہے وہاں ہے جو وہاں ہے یاں ہے
جو کچھ مصیبتیں ہیں تجھ پر کم ہیں خوشیاں دنیا کی تیرے حق میں سم ہیں غم سے کیوں دور بھاگتا ہے امجد معلوم نہیں تجھے کہ غم میں ہم ہیں
اس جسم کی کیچلی میں اک ناگ بھی ہے آواز شکست دل میں اک راگ بھی ہے بے کار نہیں بنا ہے اک تنکا بھی خاموش دیا سلائی میں آگ بھی ہے
سرمایۂ علم و فضل کھویا میں نے سب دفتر پارینہ ڈبویا میں نے بس ہے تری خاک پا تیمم کے لیے اے دوست وضو سے ہاتھ دھویا میں نے
ہر محفل سے بہ حال خستہ نکلا ہر بزم طرب سے دل شکستہ نکلا منزل ہی نہیں یہاں مسافر کے لیے سمجھا تھا جسے مقام رستہ نکلا
دنیا کے ہر ایک ذرے سے گھبراتا ہوں غم سامنے آتا ہے جدھر جاتا ہوں رہتے ہوئے اس جہاں میں مدت گزری پھر بھی اپنے کو اجنبی پاتا ہوں
گرمی میں غم لبادہ نازیبا ہے مستی میں خیال بادہ نازیبا ہے کافی ہے ضرورت کے مطابق دنیا دنیا حد سے زیادہ نازیبا ہے