Ali Akbar Abbas

علی اکبر عباس

علی اکبر عباس کی غزل

    اپنے ناخن اپنے چہرے پر خراشیں دے گئے

    اپنے ناخن اپنے چہرے پر خراشیں دے گئے گھر کے دروازے پہ کچھ بھوکے صدائیں دے گئے جاگتے لوگوں نے شب ماروں کی جب چلنے نہ دی دن چڑھے وہ روشنی کو بد دعائیں دے گئے خود ہی اپنے ہاتھ کاٹے اور آنکھیں پھوڑ لیں دیوتاؤں کو پجاری کیا سزائیں دے گئے ایک اپنی ذات کے نقطے کو مرکز مان کر حوصلوں کے ...

    مزید پڑھیے

    اندھیری بستیاں روشن منارے ڈوب جائیں گے

    اندھیری بستیاں روشن منارے ڈوب جائیں گے زمیں روتی رہی تو شہر سارے ڈوب جائیں گے جھلس دیں گی جو صحرائی ہوائیں ریشمی سائے دھوئیں کے زہر میں رنگیں نظارے ڈوب جائیں گے ابھی سے کشتیاں سب ساحلوں کی سمت رخ موڑیں کہ جب طوفان آیا پھر اشارے ڈوب جائیں گے بڑھے گی ان کی لو کوئی اگر سینچے ...

    مزید پڑھیے

    ذرا ہٹے تو وہ محور سے ٹوٹ کر ہی رہے

    ذرا ہٹے تو وہ محور سے ٹوٹ کر ہی رہے ہوا نے نوچا انہیں یوں کہ بس بکھر ہی رہے ہیں بے نشاں جو اڑے تھے بگولہ زد ہو کر زمیں پہ لیٹنے والے زمین پر ہی رہے بہار جھاڑیوں پر ٹوٹ ٹوٹ کر برسی دعائیں مانگتے اشجار بے ثمر ہی رہے خوشا یہ سایہ و خوشبو کہ طائر خوش رنگ نہ پھر یہ وقت رہے اور نہ یہ ...

    مزید پڑھیے

    زبان چپ ہے مگر ذہن رو رہا ہے لہو

    زبان چپ ہے مگر ذہن رو رہا ہے لہو کہ جیتے جاگتے لوگوں کا سو رہا ہے لہو تمام عمر ملا زہر اس تسلسل سے کہ اپنے آپ میں تریاک ہو رہا ہے لہو رگوں میں اتری ہے جو شے وہ نا موافق ہے کہ سارے جسم میں کانٹے سے بو رہا ہے لہو بس ایک دائرے میں رقص کر رہے ہیں حواس خیال ہے کہ بگولہ بلو رہا ہے ...

    مزید پڑھیے

    تیرے بکھرے لفظ بھی افکار سے عاری نہیں

    تیرے بکھرے لفظ بھی افکار سے عاری نہیں اس حقیقت سے تو کوئی شخص انکاری نہیں پھیلتا جاتا ہے اک سرطان تیرے جسم میں نشتروں کے خوف سے مت کہہ یہ بیماری نہیں گزرے وقتوں یہ عبارت میں تو کھو کر رہ گیا وقت کے ماتھے کی تحریروں کا تو قاری نہیں تیری ہر آواز ان کے شور میں دب جائے گی ان کا مقصد ...

    مزید پڑھیے

    بکھر رہی ہے جو قوت وہ پھر منظم ہو

    بکھر رہی ہے جو قوت وہ پھر منظم ہو شکست ہو تو ضروری نہیں کہ ماتم ہو ستارے سمت نما ہیں تو اکتفا کیسی زمین پر بھی کہیں جگنوؤں کا پرچم ہو وہ وقت پیٹ پہ پتھر ہی باندھنے کا ہے کہ جب زمین پہ ہی خندقوں کا موسم ہو وہی تو وقت مناسب ہے معجزے کے لئے کچھ اور آتش قحط و محال برہم ہو تلاش کرتے ...

    مزید پڑھیے

    جو خود کو پائیں تو پھر دوسرا تلاش کریں

    جو خود کو پائیں تو پھر دوسرا تلاش کریں اس اک حیات میں اب اور کیا تلاش کریں ستارہ گو ہے یہ شب اس کو غور سے سن لیں اور اس کا دن جو کہیں کھو گیا تلاش کریں ہم اپنی بات کو دیوار ہی میں چنوا دیں نظر شبیہ سماعت صدا تلاش کریں ہے باب جاں پہ رکا عکس میہماں آ کر سر وجود کوئی آئنہ تلاش ...

    مزید پڑھیے

    میں اپنے وقت میں اپنی ردا میں رہتا ہوں

    میں اپنے وقت میں اپنی ردا میں رہتا ہوں اور اپنے خواب کی آب و ہوا میں رہتا ہوں کبھی زمین کبھی سیرگاہ ماہ و نجوم کبھی میں عکس نظر آشنا میں رہتا ہوں سماعتوں پر اترتا ہوں مثل صوت یقیں دلوں کے واہمۂ برملا میں رہتا ہوں میں اڑتی گرد ہوں اہل ہنر کے تیشے کی اور اہل درد کی بھی خاک پا میں ...

    مزید پڑھیے

    میں لوح ارض پر نازل ہوا صحیفہ ہوں

    میں لوح ارض پر نازل ہوا صحیفہ ہوں دلوں پہ ثبت ہوں پیشانیوں پہ لکھا ہوں پرانی رت مرا مژدہ سنا کے جاتی ہے نئی رتوں کے جلو میں سدا اترتا ہوں میں کون ہوں مجھے سب پوچھنے سے ڈرتے ہیں میں روز ایک نئے کرب سے گزرتا ہوں میں ایک زندہ حقیقت ہوں کون جھٹلائے جو ہونٹ بند رہیں آنکھ سے چھلکتا ...

    مزید پڑھیے

    کبھی جو نور کا مظہر رہا ہے

    کبھی جو نور کا مظہر رہا ہے وہ کن تاریکیوں میں مر رہا ہے کسی سورج کا ٹکڑا توڑ لائیں زمیں کا جسم ٹھنڈا پڑ رہا ہے کہیں آثار ڈھونڈیں زندگی کے کبھی یہ چاند میرا گھر رہا ہے متاع آسماں بھی لٹ نہ جائے ستارے پر ستارہ گر رہا ہے ہوا میں لفظ لکھے جا رہے ہیں کوئی زخمی پرندہ اڑ رہا ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3