Ali Akbar Abbas

علی اکبر عباس

علی اکبر عباس کی نظم

    تلاش آخر

    آؤ آج سے ہم بھی خوف خوف ہو جائیں خوف بھی تو نشہ ہے خوف بھی تو قوت ہے خوف کے لیے بھی تو جان کی ضرورت ہے آؤ اپنی طاقت کو ہم بھی آزما دیکھیں خوف خوف ہو جائیں خود نمائی کے تیور ڈھنگ پردہ داری کے ہم نوائی کے دعوے رنگ دشمنی کے سب، خوف کی علامت ہیں قربتوں کی خواہش میں سر گرانیاں کیا ...

    مزید پڑھیے

    کشف

    گھور اندھیرے صحراؤں میں جب میں بھٹکا اک ٹیلے پر چڑھ کر چیخا خدایا!! اک سکتے کے بعد جواباً ستر بار اپنی ہی آواز سنائی دی مجھ کو

    مزید پڑھیے

    دھند

    مسافروں سے کہو آسماں کو مت دیکھیں نہ کوئی ابر کا ٹکڑا نہ کوئی تار شفق گذشتہ شام کا اٹھا ہوا وہ گرد و غبار ابھی تلک ہیں فضائیں اسی سے آلودہ وہ ایک آگ کبھی زاد راہ تھی۔ اپنا جہاں قیام کیا تھا وہیں پہ چھوڑ آئے تو اہل قافلہ اب داستان گو سے کہو کوئی روایت کہنہ کوئی حکایت نو جو خوں کو ...

    مزید پڑھیے