تلاش آخر
آؤ آج سے ہم بھی خوف خوف ہو جائیں خوف بھی تو نشہ ہے خوف بھی تو قوت ہے خوف کے لیے بھی تو جان کی ضرورت ہے آؤ اپنی طاقت کو ہم بھی آزما دیکھیں خوف خوف ہو جائیں خود نمائی کے تیور ڈھنگ پردہ داری کے ہم نوائی کے دعوے رنگ دشمنی کے سب، خوف کی علامت ہیں قربتوں کی خواہش میں سر گرانیاں کیا ...