Ali Akbar Abbas

علی اکبر عباس

علی اکبر عباس کی غزل

    غبار نور ہے یا کہکشاں ہے یا کچھ اور

    غبار نور ہے یا کہکشاں ہے یا کچھ اور یہ میرے چاروں طرف آسماں ہے یا کچھ اور جو دیکھا عرش تصور سے بارہا سوچا یہ کائنات بھی عکس رواں ہے یا کچھ اور میں کھوئے جاتا ہوں تنہائیوں کی وسعت میں در خیال در لا مکاں ہے یا کچھ اور فراق عمر کی حد کیوں لگائی ہے اس نے مرا وجود ہی اس کو گراں ہے یا ...

    مزید پڑھیے

    کسی پہ بار دگر بھی نگاہ کر نہ سکے

    کسی پہ بار دگر بھی نگاہ کر نہ سکے کوئی بھی شوق بحد گناہ کر نہ سکے اجڈ پنے میں طلب کر گئے جواز خطا خضر کے ساتھ بھی ہم تو نباہ کر نہ سکے دیار ہجر بسایا ہے جو کہ برسوں میں دم وصال کی خاطر تباہ کر نہ سکے اماں طلب نہ ہوئے دشت بے پناہ میں ہم سواد جاں بھی مگر حرف راہ کر نہ سکے سفر مآب ...

    مزید پڑھیے

    پانی میں بھی پیاس کا اتنا زہر ملا ہے

    پانی میں بھی پیاس کا اتنا زہر ملا ہے ہونٹوں پر آتے ہر قطرہ سوکھ رہا ہے اندھے ہو کر بادل بھاگے پھرتے ہیں گاتے گاتے ایک پرندہ آگ ہوا ہے پھول اور پھل تو تازہ کونپل پر آتے ہیں پیلا پتہ اس وحشت میں ٹوٹ رہا ہے گردش گردش چلنے سے ہی کٹ پائے گا چاروں جانب ایک سفر کا جال بچھا ہے اسی پیڑ ...

    مزید پڑھیے

    بوسیدہ خدشات کا ملبہ دور کہیں دفناؤ

    بوسیدہ خدشات کا ملبہ دور کہیں دفناؤ جسموں کی اس شہر پنہ میں تازہ شہر بساؤ سارے جسم کا ریشہ ریشہ سوچ کی قوت پائے پھر ہر سانس کا حاصل چاہے صدیوں پر پھیلاؤ اپنا آپ نہیں ہے سب کچھ اپنے آپ سے نکلو بدبوئیں پھیلا دیتا ہے پانی کا ٹھہراؤ مدت سے کیوں چاٹ رہے ہو لفظوں کی دیواریں سینے میں ...

    مزید پڑھیے

    دیکھنے میں لگتی تھی بھیگتی سمٹتی رات

    دیکھنے میں لگتی تھی بھیگتی سمٹتی رات پھیلتی گئی لیکن بوند بوند بٹتی رات تتلیاں پکڑنے کا آ گیا زمانہ یاد تیز تیز بڑھتے ہم دور دور ہٹتی رات کیوں پہاڑ جیسا دن خاک میں ملا ڈالا پہلے سوچ لیتے تو گرد میں نہ اٹتی رات پیار سے کیا رخصت ایک اک ستارے کو چھا رہی پھر آنکھوں میں آسماں سے ...

    مزید پڑھیے

    قیام و نقل عجائب کے ترجماں تو نہیں

    قیام و نقل عجائب کے ترجماں تو نہیں عمل ہر ایک مسلسل ہے ناگہاں تو نہیں یہ مرکزے کی حرارت کشش کا باعث ہے جو ہو وہ سرد تو پھر یہ زمیں بھی ماں تو نہیں محیط چاروں طرف سے ہے اک خلائے بسیط زمیں یہ اپنی فقط زیر آسماں تو نہیں ہوا اڑائے انہیں اور کہیں بھی لے جائے یہ ٹیلے ریت کے پکی ...

    مزید پڑھیے

    شعاعیں ایسے مرے جسم سے گزرتی گئیں

    شعاعیں ایسے مرے جسم سے گزرتی گئیں لہو میں جیسے مرے کرچیاں اترتی گئیں نہ جانے چہرے ہوں آئندہ نسل کے کیسے بس ایک خوف سے میری رگیں سکڑتی گئیں مجھے تو لگتے ہیں ناخن بھی اپنے زہر بجھے میرے لیے تو مری انگلیاں بھی مرتی گئیں جزیرے کتنے گراں پانیوں کی گود میں ہیں پناہ کے لئے سوچیں مری ...

    مزید پڑھیے

    پیش ہر عہد کو اک تیغ کا امکاں کیوں ہے

    پیش ہر عہد کو اک تیغ کا امکاں کیوں ہے ہر نیا دور نئے خوف میں غلطاں کیوں ہے شہر کے شہر ہی بے ہوش پڑے پوچھتے ہیں زندگی اپنے عمل داروں سے نالاں کیوں ہے آئنہ عکس معطل تو نہیں کرتا کبھی اتنا بے آب مگر آئینۂ جاں کیوں ہے پھر سے مطلوب خلائق ہے گواہی کوئی بر سر کوہ سیہ شعلۂ لرزاں کیوں ...

    مزید پڑھیے

    کبھی سر پہ چڑھے کبھی سر سے گزرے کبھی پاؤں آن گرے دریا

    کبھی سر پہ چڑھے کبھی سر سے گزرے کبھی پاؤں آن گرے دریا کبھی مجھے بہا کر لے جائے کبھی مجھ میں آن بہے دریا گاتا ہوں میرے سر میں سر مل جائے اس کی لہروں کا میری آنکھ میں آنسو دیکھے تو پھر اپنی آنکھ بھرے دریا میں اپنی اسے سناتا ہوں وہ اپنی مجھے سناتا ہے میں چپ تو وہ بھی چپ ہے اور میں ...

    مزید پڑھیے

    سارا دن بے کار بیٹھے شام کو گھر آ گئے

    سارا دن بے کار بیٹھے شام کو گھر آ گئے خواب میں چلنے لگے دیوار سے ٹکرا گئے میں بھری سڑکوں پہ بھی بے چاپ چلنے لگ گیا گھر میں سوئے لوگ میرے ذہن پر یوں چھا گئے میرا بیٹا میرے دشمن کی ہی تصویریں بنائے میرے ابا اس کی کاپی دیکھ کر گھبرا گئے جب بھی سورج ڈوبتے دیکھا میں خوش ہونے لگا پر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3