کبھی جو نور کا مظہر رہا ہے
کبھی جو نور کا مظہر رہا ہے
وہ کن تاریکیوں میں مر رہا ہے
کسی سورج کا ٹکڑا توڑ لائیں
زمیں کا جسم ٹھنڈا پڑ رہا ہے
کہیں آثار ڈھونڈیں زندگی کے
کبھی یہ چاند میرا گھر رہا ہے
متاع آسماں بھی لٹ نہ جائے
ستارے پر ستارہ گر رہا ہے
ہوا میں لفظ لکھے جا رہے ہیں
کوئی زخمی پرندہ اڑ رہا ہے