زبان چپ ہے مگر ذہن رو رہا ہے لہو

زبان چپ ہے مگر ذہن رو رہا ہے لہو
کہ جیتے جاگتے لوگوں کا سو رہا ہے لہو


تمام عمر ملا زہر اس تسلسل سے
کہ اپنے آپ میں تریاک ہو رہا ہے لہو


رگوں میں اتری ہے جو شے وہ نا موافق ہے
کہ سارے جسم میں کانٹے سے بو رہا ہے لہو


بس ایک دائرے میں رقص کر رہے ہیں حواس
خیال ہے کہ بگولہ بلو رہا ہے لہو


ہر ایک لحظہ اترتی کثافتیں مجھ میں
اور ایک گردش پیہم میں دھو رہا ہے لہو


کوئی کمک تو ملے اب مدافعت کے لئے
وگرنہ رنگ کی طاقت بھی کھو رہا ہے لہو