تیرے بکھرے لفظ بھی افکار سے عاری نہیں
تیرے بکھرے لفظ بھی افکار سے عاری نہیں
اس حقیقت سے تو کوئی شخص انکاری نہیں
پھیلتا جاتا ہے اک سرطان تیرے جسم میں
نشتروں کے خوف سے مت کہہ یہ بیماری نہیں
گزرے وقتوں یہ عبارت میں تو کھو کر رہ گیا
وقت کے ماتھے کی تحریروں کا تو قاری نہیں
تیری ہر آواز ان کے شور میں دب جائے گی
ان کا مقصد تو ترا ہانکا ہے ششکاری نہیں
مصلحت اندیش تو کوتاہ اندیشوں میں ہے
آئنہ تیرا ابھی میلا ہے زنگاری نہیں