Ali Akbar Abbas

علی اکبر عباس

علی اکبر عباس کے تمام مواد

21 غزل (Ghazal)

    غبار نور ہے یا کہکشاں ہے یا کچھ اور

    غبار نور ہے یا کہکشاں ہے یا کچھ اور یہ میرے چاروں طرف آسماں ہے یا کچھ اور جو دیکھا عرش تصور سے بارہا سوچا یہ کائنات بھی عکس رواں ہے یا کچھ اور میں کھوئے جاتا ہوں تنہائیوں کی وسعت میں در خیال در لا مکاں ہے یا کچھ اور فراق عمر کی حد کیوں لگائی ہے اس نے مرا وجود ہی اس کو گراں ہے یا ...

    مزید پڑھیے

    کسی پہ بار دگر بھی نگاہ کر نہ سکے

    کسی پہ بار دگر بھی نگاہ کر نہ سکے کوئی بھی شوق بحد گناہ کر نہ سکے اجڈ پنے میں طلب کر گئے جواز خطا خضر کے ساتھ بھی ہم تو نباہ کر نہ سکے دیار ہجر بسایا ہے جو کہ برسوں میں دم وصال کی خاطر تباہ کر نہ سکے اماں طلب نہ ہوئے دشت بے پناہ میں ہم سواد جاں بھی مگر حرف راہ کر نہ سکے سفر مآب ...

    مزید پڑھیے

    پانی میں بھی پیاس کا اتنا زہر ملا ہے

    پانی میں بھی پیاس کا اتنا زہر ملا ہے ہونٹوں پر آتے ہر قطرہ سوکھ رہا ہے اندھے ہو کر بادل بھاگے پھرتے ہیں گاتے گاتے ایک پرندہ آگ ہوا ہے پھول اور پھل تو تازہ کونپل پر آتے ہیں پیلا پتہ اس وحشت میں ٹوٹ رہا ہے گردش گردش چلنے سے ہی کٹ پائے گا چاروں جانب ایک سفر کا جال بچھا ہے اسی پیڑ ...

    مزید پڑھیے

    بوسیدہ خدشات کا ملبہ دور کہیں دفناؤ

    بوسیدہ خدشات کا ملبہ دور کہیں دفناؤ جسموں کی اس شہر پنہ میں تازہ شہر بساؤ سارے جسم کا ریشہ ریشہ سوچ کی قوت پائے پھر ہر سانس کا حاصل چاہے صدیوں پر پھیلاؤ اپنا آپ نہیں ہے سب کچھ اپنے آپ سے نکلو بدبوئیں پھیلا دیتا ہے پانی کا ٹھہراؤ مدت سے کیوں چاٹ رہے ہو لفظوں کی دیواریں سینے میں ...

    مزید پڑھیے

    دیکھنے میں لگتی تھی بھیگتی سمٹتی رات

    دیکھنے میں لگتی تھی بھیگتی سمٹتی رات پھیلتی گئی لیکن بوند بوند بٹتی رات تتلیاں پکڑنے کا آ گیا زمانہ یاد تیز تیز بڑھتے ہم دور دور ہٹتی رات کیوں پہاڑ جیسا دن خاک میں ملا ڈالا پہلے سوچ لیتے تو گرد میں نہ اٹتی رات پیار سے کیا رخصت ایک اک ستارے کو چھا رہی پھر آنکھوں میں آسماں سے ...

    مزید پڑھیے

تمام

3 نظم (Nazm)

    تلاش آخر

    آؤ آج سے ہم بھی خوف خوف ہو جائیں خوف بھی تو نشہ ہے خوف بھی تو قوت ہے خوف کے لیے بھی تو جان کی ضرورت ہے آؤ اپنی طاقت کو ہم بھی آزما دیکھیں خوف خوف ہو جائیں خود نمائی کے تیور ڈھنگ پردہ داری کے ہم نوائی کے دعوے رنگ دشمنی کے سب، خوف کی علامت ہیں قربتوں کی خواہش میں سر گرانیاں کیا ...

    مزید پڑھیے

    کشف

    گھور اندھیرے صحراؤں میں جب میں بھٹکا اک ٹیلے پر چڑھ کر چیخا خدایا!! اک سکتے کے بعد جواباً ستر بار اپنی ہی آواز سنائی دی مجھ کو

    مزید پڑھیے

    دھند

    مسافروں سے کہو آسماں کو مت دیکھیں نہ کوئی ابر کا ٹکڑا نہ کوئی تار شفق گذشتہ شام کا اٹھا ہوا وہ گرد و غبار ابھی تلک ہیں فضائیں اسی سے آلودہ وہ ایک آگ کبھی زاد راہ تھی۔ اپنا جہاں قیام کیا تھا وہیں پہ چھوڑ آئے تو اہل قافلہ اب داستان گو سے کہو کوئی روایت کہنہ کوئی حکایت نو جو خوں کو ...

    مزید پڑھیے