میں لوح ارض پر نازل ہوا صحیفہ ہوں

میں لوح ارض پر نازل ہوا صحیفہ ہوں
دلوں پہ ثبت ہوں پیشانیوں پہ لکھا ہوں


پرانی رت مرا مژدہ سنا کے جاتی ہے
نئی رتوں کے جلو میں سدا اترتا ہوں


میں کون ہوں مجھے سب پوچھنے سے ڈرتے ہیں
میں روز ایک نئے کرب سے گزرتا ہوں


میں ایک زندہ حقیقت ہوں کون جھٹلائے
جو ہونٹ بند رہیں آنکھ سے چھلکتا ہوں


کھلی ہوا میں جو آؤں تو راکھ بن جاؤں
ابھی میں زیر زمیں ہوں مگر ابلتا ہوں


کسی طرح تو سویروں کی آنکھ کھل جائے
میں شہر شہر میں سورج اٹھائے چلتا ہوں