Alam Khursheed

عالم خورشید

اہم ما بعد جدید شاعر

Prominent Post-Modern poet.

عالم خورشید کی غزل

    دیکھ رہا ہے دریا بھی حیرانی سے

    دیکھ رہا ہے دریا بھی حیرانی سے میں نے کیسے پار کیا آسانی سے ندی کنارے پہروں بیٹھا رہتا ہوں کیا رشتہ ہے میرا بہتے پانی سے ہر کمرے سے دھوپ ہوا کی یاری تھی گھر کا نقشہ بگڑا ہے نادانی سے اب صحرا میں چین سے سویا کرتا ہوں ڈر لگتا تھا بچپن میں ویرانی سے دل پاگل ہے روز پشیماں ہوتا ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں اپنی مسافت بے مزہ کرنا نہیں ہے

    ہمیں اپنی مسافت بے مزہ کرنا نہیں ہے سفر کرنا ہے منزل کا پتہ کرنا نہیں ہے بلا سے ہم کسی ساحل پہ پہنچیں یا نہ پہنچیں کسی بھی ناخدا کو اب خدا کرنا نہیں ہے ہواؤں سے ہی قائم ہے ہماری ضو فشانی ہواؤں سے چراغوں کو جدا کرنا نہیں ہے بدلتے وقت کے تیور پرکھنا چاہتے ہیں کہا کس نے بزرگوں کا ...

    مزید پڑھیے

    ہر گھر میں کوئی تہہ خانہ ہوتا ہے

    ہر گھر میں کوئی تہہ خانہ ہوتا ہے تہہ خانے میں اک افسانہ ہوتا ہے کسی پرانی الماری کے خانوں میں یادوں کا انمول خزانہ ہوتا ہے رات گئے اکثر دل کے ویرانوں میں اک سائے کا آنا جانا ہوتا ہے بڑھتی جاتی ہے بے چینی ناخن کی جیسے جیسے زخم پرانا ہوتا ہے دل روتا ہے چہرا ہنستا رہتا ہے کیسا ...

    مزید پڑھیے

    نئے سرے سے کوئی سفر آغاز نہیں کرتا

    نئے سرے سے کوئی سفر آغاز نہیں کرتا جانے کیوں اب دل میرا پرواز نہیں کرتا کتنی بری عادت ہے میں خاموش ہی رہتا ہوں جب تک مجھ سے کوئی سخن آغاز نہیں کرتا کیسے زندہ رہتا ہوں میں زہر کو پی کر اب دیوار و در کو بھی تو ہم راز نہیں کرتا تازہ ہوا کے جھونکے اکثر آتے رہتے ہیں آخر کیوں میں اپنے ...

    مزید پڑھیے

    تاریکی میں زندہ رہنا ہم کو نہیں منظور

    تاریکی میں زندہ رہنا ہم کو نہیں منظور جگنو سا تابندہ رہنا ہم کو نہیں منظور اک پل کو ہی چمکیں لیکن بجلی سی لہرائیں راکھ تلے پایندہ رہنا ہم کو نہیں منظور نغمہ چھیڑیں ساز بجائیں اپنے دل کا ہم موسم کا سا زندہ رہنا ہم کو نہیں منظور ہم آزاد پرندے ساری دنیا اپنی ہے خطے کا باشندہ رہنا ...

    مزید پڑھیے

    آتا ہے نظر اور ہی منظر ہے کوئی اور

    آتا ہے نظر اور ہی منظر ہے کوئی اور کیا محو تماشا مرے اندر ہے کوئی اور تبدیل ہوئی کیسے ہر اک گھر کی وراثت در پر ہے کوئی نام پس در ہے کوئی اور نظارہ کہاں ایسا کسی دشت میں دیکھا پاؤں تو کسی کے ہیں مگر سر ہے کوئی اور الجھی ہے مگر تشنہ لبی تشنہ لبی سے یہ بات الگ ہے کہ سمندر ہے کوئی ...

    مزید پڑھیے

    کبھی میں ذکر کروں دن کی شادمانی کا

    کبھی میں ذکر کروں دن کی شادمانی کا فسانہ ختم تو ہو شب کی سرگرانی کا سمٹ کے آ گیا قدموں میں کس طرح صحرا سنا تھا شور بہت اس کی بے کرانی کا عجب نہیں کہ نئے راستے نکل آئیں کسی نے راستہ روکا ہے بہتے پانی کا تمام اہل زباں باطلوں کے حق میں ہیں مجھے ملال نہیں اپنی بے زبانی کا جو بات ...

    مزید پڑھیے

    کوئی بھی شے کہاں نایاب ہے ہمارے لئے

    کوئی بھی شے کہاں نایاب ہے ہمارے لئے کھلا ہوا تو در خواب ہے ہمارے لئے ہمیں ہی روشنی اس کی نظر نہیں آتی چراغ تو پس محراب ہے ہمارے لئے پلک جھپکتے ہی سب کچھ نیا سا لگتا ہے یہ زندگی بھی کوئی خواب ہے ہمارے لئے اترتے جاتے ہیں پہنائیوں میں دریا کی کہ جلتی شمع تہہ آب ہے ہمارے لئے ہمیں ...

    مزید پڑھیے

    سیاہ رات کے بدن پہ داغ بن کے رہ گئے

    سیاہ رات کے بدن پہ داغ بن کے رہ گئے ہم آفتاب تھے مگر چراغ بن کے رہ گئے کسی کو عشق میں بھی اب جنوں سے واسطہ نہیں یہ کیا ہوا کہ سارے دل دماغ بن کے رہ گئے وہ شاخ شاخ نیلے پیلے لال رنگ کیا ہوئے تمام دشت کے پرند زاغ بن کے رہ گئے جنہیں یہ زعم تھا زمیں سے تشنگی مٹائیں گے عجب ہوا وہی تہی ...

    مزید پڑھیے

    یہ بات وقت سے پہلے کہاں سمجھتے ہیں

    یہ بات وقت سے پہلے کہاں سمجھتے ہیں ہم اک سرائے کو اپنا مکاں سمجھتے ہیں یقیں کسی کو نہیں اپنی بے ثباتی کا سب اپنے آپ کو شاہ زماں سمجھتے ہیں بس اک اڑان بھری ہے ابھی خلاؤں تک اسی کو اہل زمیں آسماں سمجھتے ہیں ہمیں بھی کھینچتی ہے اس کی ہر کشش لیکن یہ خاکداں ہے اسے خاکداں سمجھتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5