کبھی میں ذکر کروں دن کی شادمانی کا

کبھی میں ذکر کروں دن کی شادمانی کا
فسانہ ختم تو ہو شب کی سرگرانی کا


سمٹ کے آ گیا قدموں میں کس طرح صحرا
سنا تھا شور بہت اس کی بے کرانی کا


عجب نہیں کہ نئے راستے نکل آئیں
کسی نے راستہ روکا ہے بہتے پانی کا


تمام اہل زباں باطلوں کے حق میں ہیں
مجھے ملال نہیں اپنی بے زبانی کا


جو بات کہنی تھی اب تک کہی نہیں میں نے
میں اختتام کروں کیسے اس کہانی کا


خدا سمجھتا ہے خود کو یہاں جو آتا ہے
عجیب حال ہے عالمؔ سرائے فانی کا