Alam Khursheed

عالم خورشید

اہم ما بعد جدید شاعر

Prominent Post-Modern poet.

عالم خورشید کی غزل

    ہر گھڑی اک یہی احساس زیاں رہتا ہے

    ہر گھڑی اک یہی احساس زیاں رہتا ہے آگ روشن تھی جہاں صرف دھواں رہتا ہے ختم ہوتا ہی نہیں دشت کا اب سناٹا کوئی موسم ہو یہاں ایک سماں رہتا ہے آ گئی راس مرے دل کی اداسی شاید اتنی مدت بھی کہیں دور خزاں رہتا ہے پھول کھلتے ہیں تو مرجھائے ہوئے لگتے ہیں اک عجب خوف سر شاخ گماں رہتا ہے ساز ...

    مزید پڑھیے

    سڑک پہ دوڑتے مہتاب دیکھ لیتا ہوں

    سڑک پہ دوڑتے مہتاب دیکھ لیتا ہوں میں چلتا پھرتا ہوا خواب دیکھ لیتا ہوں مری نظر سے پرے سیکڑوں جہاں ہوں گے میں اک جہان تہہ آب دیکھ لیتا ہوں میں ٹوٹے بکھرے ہوئے دوستوں کی بستی میں نئے نظام کے آداب دیکھ لیتا ہوں عجیب دھند ہے میں اپنی ہار میں عالمؔ شکست گنبد و محراب دیکھ لیتا ہوں

    مزید پڑھیے

    ہم کو لطف آتا ہے اب فریب کھانے میں

    ہم کو لطف آتا ہے اب فریب کھانے میں آزمائیں لوگوں کو خوب آزمانے میں دو گھڑی کے ساتھی کو ہم سفر سمجھتے ہیں کس قدر پرانے ہیں ہم نئے زمانے میں تیرے پاس آنے میں آدھی عمر گزری ہے آدھی عمر گزرے گی تجھ سے اوب جانے میں احتیاط رکھنے کی کوئی حد بھی ہوتی ہے بھید ہمیں نے کھولے ہیں بھید کو ...

    مزید پڑھیے

    کس لمحے ہم تیرا دھیان نہیں کرتے

    کس لمحے ہم تیرا دھیان نہیں کرتے ہاں کوئی عہد و پیمان نہیں کرتے ہر دم تیری مالا جپتے ہیں لیکن گلیوں کوچوں میں اعلان نہیں کرتے اپنی کہانی دل میں چھپا کر رکھتے ہیں دنیا والوں کو حیران نہیں کرتے اک کمرے کو بند رکھا ہے برسوں سے وہاں کسی کو ہم مہمان نہیں کرتے اک جیسا دکھ مل کر ...

    مزید پڑھیے

    عالمؔ جیون کھیل تماشہ دانائی نادانی ہے

    عالمؔ جیون کھیل تماشہ دانائی نادانی ہے تب تک زندہ رہتے ہیں ہم جب تک اک حیرانی ہے آگ ہوا اور مٹی پانی مل کر کیسے رہتے ہیں دیکھ کے خود کو حیراں ہوں میں جیسے خواب کہانی ہے آوازوں کا جنگل بھی ہے سناٹوں کا صحرا بھی ایک طرف آبادی مجھ میں ایک طرف ویرانی ہے اس منظر کو آخر کیوں میں ...

    مزید پڑھیے

    اب چھت پہ کوئی چاند ٹہلتا ہی نہیں ہے

    اب چھت پہ کوئی چاند ٹہلتا ہی نہیں ہے دل میرا مگر پہلو بدلتا ہی نہیں ہے کب سے میں یہاں بت بنا بیٹھا ہوں سر راہ بت ہے کہ شوالے سے نکلتا ہی نہیں ہے سونے کی جگہ روز بدلتا ہوں میں لیکن وہ خواب کسی طرح بدلتا ہی نہیں ہے میں کھینچتا رہتا ہوں اسے دل سے شب و روز وہ تیر مرے دل سے نکلتا ہی ...

    مزید پڑھیے

    اور اک شہر ہے کیا شہر گماں سے آگے

    اور اک شہر ہے کیا شہر گماں سے آگے ہم کو جانا ہے بہت دور یہاں سے آگے گردش پا کسی منزل پہ ٹھہرتی ہی نہیں دل مگر بڑھتا نہیں کوئے بتاں سے آگے گونجتی رہتی ہیں ساحل کی صدائیں ہر دم ہم نے دیکھا ہی نہیں موج رواں سے آگے مدعا اپنا کسی شخص پہ ظاہر نہ ہوا کوئی جاتا ہی نہیں طرز بیاں سے ...

    مزید پڑھیے

    ذرا سی دھوپ ذرا سی نمی کے آنے سے

    ذرا سی دھوپ ذرا سی نمی کے آنے سے میں جی اٹھا ہوں ذرا تازگی کے آنے سے اداس ہو گئے اک پل میں شادماں چہرے مرے لبوں پہ ذرا سی ہنسی کے آنے سے دکھوں کے یار بچھڑنے لگے ہیں اب مجھ سے یہ سانحہ بھی ہوا ہے خوشی کے آنے سے کرخت ہونے لگے ہیں بجھے ہوئے لہجے مرے مزاج میں شائستگی کے آنے سے بہت ...

    مزید پڑھیے

    دل بدلنے سے نہ افلاک بدل جانے سے

    دل بدلنے سے نہ افلاک بدل جانے سے شہر بدلا مری پوشاک بدل جانے سے کس قدر ہو گئی آسان ہماری مشکل ایک پیمانۂ ادراک بدل جانے سے آج بھی رقص ہی کرنا ہے اشاروں پہ ہمیں فائدہ کچھ نہ ہوا چاک بدل جانے سے راستہ اب بھی وہی ہے مری منزل بھی وہی تیز رو میں ہوا پیچاک بدل جانے سے بھیڑ بڑھنے لگی ...

    مزید پڑھیے

    ہاتھ پکڑ لے اب بھی تیرا ہو سکتا ہوں میں

    ہاتھ پکڑ لے اب بھی تیرا ہو سکتا ہوں میں بھیڑ بہت ہے اس میلے میں کھو سکتا ہوں میں پیچھے چھوٹے ساتھی مجھ کو یاد آ جاتے ہیں ورنہ دوڑ میں سب سے آگے ہو سکتا ہوں میں کب سمجھیں گے جن کی خاطر پھول بچھاتا ہوں راہ گزر میں کانٹے بھی تو بو سکتا ہوں میں اک چھوٹا سا بچہ مجھ میں اب تک زندہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5