سیاہ رات کے بدن پہ داغ بن کے رہ گئے
سیاہ رات کے بدن پہ داغ بن کے رہ گئے
ہم آفتاب تھے مگر چراغ بن کے رہ گئے
کسی کو عشق میں بھی اب جنوں سے واسطہ نہیں
یہ کیا ہوا کہ سارے دل دماغ بن کے رہ گئے
وہ شاخ شاخ نیلے پیلے لال رنگ کیا ہوئے
تمام دشت کے پرند زاغ بن کے رہ گئے
جنہیں یہ زعم تھا زمیں سے تشنگی مٹائیں گے
عجب ہوا وہی تہی ایاغ بن کے رہ گئے
ملے گا سب کو اپنا حق رہیں گے سب سکون سے
مگر وہ سارے وعدے سبز باغ بن کے رہ گئے
اجاڑتے ہیں روز ہم بسی بسائی بستیاں
خوشا وہ لوگ جو مکین راغ بن کے رہ گئے