آتا ہے نظر اور ہی منظر ہے کوئی اور
آتا ہے نظر اور ہی منظر ہے کوئی اور
کیا محو تماشا مرے اندر ہے کوئی اور
تبدیل ہوئی کیسے ہر اک گھر کی وراثت
در پر ہے کوئی نام پس در ہے کوئی اور
نظارہ کہاں ایسا کسی دشت میں دیکھا
پاؤں تو کسی کے ہیں مگر سر ہے کوئی اور
الجھی ہے مگر تشنہ لبی تشنہ لبی سے
یہ بات الگ ہے کہ سمندر ہے کوئی اور