Adeeb Malegavi

ادیب مالیگانوی

ادیب مالیگانوی کی غزل

    کہاں انجام کی تصویر اس نادان کے آگے

    کہاں انجام کی تصویر اس نادان کے آگے بنائے ریت کی دیوار جو طوفان کے آگے حوادث کا تسلسل یوں ہی رہتا ہے زمانے میں کسی کی جان کے پیچھے کسی کی جان کے آگے ستارے ڈھالتی ہیں تربیت گاہیں تمدن کی تو پھر کیوں زندگی بے نور ہے انسان کے آگے لہو میں ڈوب کر جب اک نوائے جاں فزا نکلی ہزاروں ساز ...

    مزید پڑھیے

    آہ لب تک دل ناکام نہ آنے پائے

    آہ لب تک دل ناکام نہ آنے پائے ضبط غم پر کوئی الزام نہ آنے پائے میں سناتا تو ہوں روداد محبت لیکن درمیاں میں جو ترا نام نہ آئے پائے تم نے چاہا بھی تو کیا دشمن راحت بن کر کوئی دنیا میں مرے کام نہ آنے پائے محفل عشق میں چھا جائے گا اک سناٹا یوں تڑپتا ہوں کہ آرام نہ آنے پائے دیکھ پائے ...

    مزید پڑھیے

    حصول آرزو میں سعیٔ امکانی تو ہوتی ہے

    حصول آرزو میں سعیٔ امکانی تو ہوتی ہے پریشانی سے کیا ڈرنا پریشانی تو ہوتی ہے کوئی گھبرا کے اپنی جان ہی دے دے تو کیا کہئے ہر اک مشکل سے پیدا ورنہ آسانی تو ہوتی ہے بہاروں سے تعلق عارضی اپنا سہی لیکن ہمارے گھر کی رونق اب بھی ویرانی تو ہوتی ہے مزاج حسن پر کیا زور اہل عشق کا ورنہ جب ...

    مزید پڑھیے

    حسن کعبے کا ہے کوئی نہ صنم خانے کا

    حسن کعبے کا ہے کوئی نہ صنم خانے کا صرف اک حسن نظر ہے ترے دیوانے کا عشق رسوا بھی ہے مجبور بھی دیوانہ بھی اور ابھی خیر سے آغاز ہے افسانے کا کار فرما ترے جلوؤں کی کشش ہے ورنہ شمع سے دور کا رشتہ نہیں پروانے کا یہی تکمیل محبت کی ہے منزل شاید ہوش اپنا مجھے باقی ہے نہ بیگانے کا کون ...

    مزید پڑھیے

    آج کی رات یاد آئے گی

    آج کی رات یاد آئے گی ایک اک بات یاد آئے گی چاندنی میں بہم نیاز و ناز یہ ملاقات یاد آئے گی چند لمحوں کی صحبت رنگیں اکثر اوقات یاد آئے گی عشق کو اپنی سادگی کے ساتھ حسن کی گھات یاد آئے گی دل کی ہر بوند بن گئی چھالا اب کے برسات یاد آئے گی ان سے ذکر وفا جو چل نکلا بات پر بات یاد آئے ...

    مزید پڑھیے

    غم دے کے غم گسار ہوئے بھی تو کیا ہوئے

    غم دے کے غم گسار ہوئے بھی تو کیا ہوئے تڑپا کے بے قرار ہوئے بھی تو کیا ہوئے کرنا تھا داغ بن کے کسی دل میں روشنی شمع سر مزار ہوئے بھی تو کیا ہوئے ہونا تھا آپ اپنے چمن میں شگوفہ کار شرمندۂ بہار ہوئے بھی تو کیا ہوئے مٹتے کسی کے عشق میں اے دل تو بات تھی برباد روزگار ہوئے بھی تو کیا ...

    مزید پڑھیے

    پریشانی میں اظہار پریشانی سے کیا حاصل

    پریشانی میں اظہار پریشانی سے کیا حاصل بھرے بازار میں خود اپنی ارزانی سے کیا حاصل مجھے ہر منزل مستی سے ہنس ہنس کر گزرنا ہے مٹا دے جو مری ہمت اس آسانی سے کیا حاصل بغیر جبر و قوت جھک نہیں سکتا جو اک سر بھی تو پھر ایسی جہانگیری جہاں بانی سے کیا حاصل ہجوم برق و باراں ہو نزول قہر و ...

    مزید پڑھیے

    دنیا کی جفائیں بھول گئیں تقدیر کا شکوہ بھول گئے

    دنیا کی جفائیں بھول گئیں تقدیر کا شکوہ بھول گئے جب ان سے نگاہیں چار ہوئیں سب اپنا پرایا بھول گئے اک مست نظر نے ساقی کی رندوں پہ کچھ ایسا سحر کیا فکر مے و مینا کیا کہئے ذکر مے و مینا بھول گئے ہم اور کسی کی بزم طرب یہ راز سمجھ میں آ نہ سکا اے عشق کہیں ایسا تو نہیں وہ ہم کو بھلانا ...

    مزید پڑھیے

    بے کسی رخ بدل ہی جاتی ہے

    بے کسی رخ بدل ہی جاتی ہے آہ منہ سے نکل ہی جاتی ہے حسن ہو عیش ہو جوانی ہو دھوپ آخر کو ڈھل ہی جاتی ہے ہے غم عشق مستقل ورنہ ہر بلا سر سے ٹل ہی جاتی ہے پھول کرتے رہیں جتن لاکھوں بو چمن سے نکل ہی جاتی ہے جانتے ہم بھی ہیں مآل نشاط حسرت دل مچل ہی جاتی ہے میری مجبوریوں پہ ان کی نظر ہاتھ ...

    مزید پڑھیے

    وہ اک نگاہ جو بے اختیار کرتی ہے

    وہ اک نگاہ جو بے اختیار کرتی ہے دلوں کو درد کا امیدوار کرتی ہے وہی سلوک مرے دل سے تم بھی کیوں نہ کرو چمن کے ساتھ جو فصل بہار کرتی ہے نگاہ شوق کو دوں کونسی سزا یا رب یہ دل کا راز نہاں آشکار کرتی ہے سمجھ سکا نہ کوئی فطرت محبت کو یہ اس کو پھونکتی ہے جس کو پیار کرتی ہے مجھے تو چین ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2