آہ لب تک دل ناکام نہ آنے پائے

آہ لب تک دل ناکام نہ آنے پائے
ضبط غم پر کوئی الزام نہ آنے پائے


میں سناتا تو ہوں روداد محبت لیکن
درمیاں میں جو ترا نام نہ آئے پائے


تم نے چاہا بھی تو کیا دشمن راحت بن کر
کوئی دنیا میں مرے کام نہ آنے پائے


محفل عشق میں چھا جائے گا اک سناٹا
یوں تڑپتا ہوں کہ آرام نہ آنے پائے


دیکھ پائے نہ ستاروں کی نظر بھی تم کو
آؤ اس طرح کہ الزام نہ آنے پائے


منزل شوق میں کہتا ہے جنوں مجھ سے ادیبؔ
دل میں اندیشۂ انجام نہ آنے پائے