بے کسی رخ بدل ہی جاتی ہے
بے کسی رخ بدل ہی جاتی ہے
آہ منہ سے نکل ہی جاتی ہے
حسن ہو عیش ہو جوانی ہو
دھوپ آخر کو ڈھل ہی جاتی ہے
ہے غم عشق مستقل ورنہ
ہر بلا سر سے ٹل ہی جاتی ہے
پھول کرتے رہیں جتن لاکھوں
بو چمن سے نکل ہی جاتی ہے
جانتے ہم بھی ہیں مآل نشاط
حسرت دل مچل ہی جاتی ہے
میری مجبوریوں پہ ان کی نظر
ہاتھ در پردہ مل ہی جاتی ہے
دیکھ کر کامرانیٔ تدبیر
چال قسمت بھی چل ہی جاتی ہے
ٹھوکریں کھا کے فطرت انسان
راہ غم میں سنبھل ہی جاتی ہے
نظم بھی ترجمان دل ہے ادیبؔ
پیش لیکن غزل ہی جاتی ہے