وہ اک نگاہ جو بے اختیار کرتی ہے

وہ اک نگاہ جو بے اختیار کرتی ہے
دلوں کو درد کا امیدوار کرتی ہے


وہی سلوک مرے دل سے تم بھی کیوں نہ کرو
چمن کے ساتھ جو فصل بہار کرتی ہے


نگاہ شوق کو دوں کونسی سزا یا رب
یہ دل کا راز نہاں آشکار کرتی ہے


سمجھ سکا نہ کوئی فطرت محبت کو
یہ اس کو پھونکتی ہے جس کو پیار کرتی ہے


مجھے تو چین نہیں ہے کشاکش غم سے
وہ شے ہے کیا جو تمہیں بے قرار کرتی ہے


نہ آئے تم تو شکایت مجھے نہیں لیکن
یہ چاندنی جو مجھے شرمسار کرتی ہے


غرور عشق بہت ہو چکا ادیبؔ بہت
وہ بزم اب بھی ترا انتظار کرتی ہے