کہاں انجام کی تصویر اس نادان کے آگے

کہاں انجام کی تصویر اس نادان کے آگے
بنائے ریت کی دیوار جو طوفان کے آگے


حوادث کا تسلسل یوں ہی رہتا ہے زمانے میں
کسی کی جان کے پیچھے کسی کی جان کے آگے


ستارے ڈھالتی ہیں تربیت گاہیں تمدن کی
تو پھر کیوں زندگی بے نور ہے انسان کے آگے


لہو میں ڈوب کر جب اک نوائے جاں فزا نکلی
ہزاروں ساز ساکت ہو گئے اس تان کے آگے


یہ وہ دور تغیر ہے کہ جس میں خلعت شاہی
نگوں سر ہے شکستہ چادروں کی شان کے آگے


ترے قدموں سے نسبت جن کو ہے وہ سر جھکیں کیونکر
کسی مغرور کے در پر کسی سلطان کے آگے


ہماری ہی نظر پروردہ ہے وہ بے اماں بجلی
کڑکتی ہے جو ہر فرعون‌‌ بے سامان کے آگے


نکھارا ہو جسے اہل ہنر نے اپنا خوں دے کر
وہ فن بے رنگ کیا ہوتا کسی بحران کے آگے


زمانہ سرد کر دے گا ادیبؔ ان شعلہ زاروں کو
نئی دنیا کی جنت ہے نئے انسان کے آگے