حسن کعبے کا ہے کوئی نہ صنم خانے کا

حسن کعبے کا ہے کوئی نہ صنم خانے کا
صرف اک حسن نظر ہے ترے دیوانے کا


عشق رسوا بھی ہے مجبور بھی دیوانہ بھی
اور ابھی خیر سے آغاز ہے افسانے کا


کار فرما ترے جلوؤں کی کشش ہے ورنہ
شمع سے دور کا رشتہ نہیں پروانے کا


یہی تکمیل محبت کی ہے منزل شاید
ہوش اپنا مجھے باقی ہے نہ بیگانے کا


کون سمجھے گا مرے درد محبت کو یہاں
ہے حقیقت مگر انداز ہے افسانے کا


حسن خود صرف تماشا ہو دو عالم کیا ہے
پردہ اٹھے تو سہی عشق کے دیوانے کا


صبح کی چھاؤں میں چونکے تو ہیں غافل لیکن
شمع کا سوگ کہ ماتم کریں پروانے کا


تم نے برباد کیا بھی تو اس احسان کے ساتھ
جیسے مدت سے مجھے شوق تھا مٹ جانے کا


دشت غربت سے پلٹتا ہوں میں جب سوئے وطن
پوچھ لیتا ہوں نشاں برق سے کاشانے کا


جھلملاتے ہوئے تاروں پہ یہ ہوتا ہے گماں
یہ بھی اک رنگ ہے گویا مرے افسانے کا


اہل مے خانہ لئے پھرتے ہیں آنکھوں میں ادیبؔ
ریزہ ریزہ مرے ٹوٹے ہوئے پیمانے کا