Abu Leveeza Ali

ابو لیویزہ علی

  • 1981

ابو لیویزہ علی کی غزل

    پاؤں جب میرے آسمان میں تھے

    پاؤں جب میرے آسمان میں تھے اس گھڑی آپ ہی دھیان میں تھے جس گھڑی ہم بہت تھے پر امید اس گھڑی آپ کے جہان میں تھے عسرت زیست ہم غریبوں پر دھوپ چھوٹی تو ہم تھکان میں تھے سیر دیوار و در کی کی ہم نے عیش تھی رات ہم مکان میں تھے یاد رہتے تو چور ہو جاتے خواب کیا کیا مرے گمان میں تھے یاد ہے ...

    مزید پڑھیے

    پلٹ جانا کوئی مشکل نہیں تھا

    پلٹ جانا کوئی مشکل نہیں تھا مرا ہی واپسی کا دل نہیں تھا متاع زیست لا حاصل نہیں تھا ولے پانے کے میں قابل نہیں تھا وہ چھریاں دھار جس پر ہو رہیں تھیں مرا ہی دل تھا کوئی سل نہیں تھا کھلا باب جنوں جب مجھ پہ یارو مرا تب کوئی مستقبل نہیں تھا مریض عشق ہونے تک سنا ہے ادھوری ذات تھا کامل ...

    مزید پڑھیے

    ہماری آنکھ میں دو پل کی جو خماری تھی

    ہماری آنکھ میں دو پل کی جو خماری تھی ادھاری تھی وہ تمہیں دیکھ کر اتاری تھی ہمارے شانوں پہ دن بوجھ تھا گھرانے کا سفر میں شام کٹی رات بے قراری تھی خلوص نام کا پنچھی تمہارے پاس نہ تھا دغا تھا جھوٹ تھا تم میں فریب کاری تھی تمہارے بعد نئے خواب کی تلاش میں تھے ہماری پلکوں پہ وہ ایک ...

    مزید پڑھیے

    پاؤں جب میرے آسمان میں تھے

    پاؤں جب میرے آسمان میں تھے اس گھڑی آپ ہی دھیان میں تھے جس گھڑی ہم بہت تھے پر امید اس گھڑی آپ کے جہان میں تھے عسرت زیست ہم غریبوں پر دھوپ چھوٹی تو ہم تھکان میں تھے سیر دیوار و در کی کی ہم نے عیش تھی رات ہم مکان میں تھے یاد رہتے تو چور ہو جاتے خواب کیا کیا مرے گمان میں تھے یاد ہے ...

    مزید پڑھیے

    کسی کا خط ہے یا یہ غزل ہے یہ کیسا پرچہ پڑا ہوا ہے

    کسی کا خط ہے یا یہ غزل ہے یہ کیسا پرچہ پڑا ہوا ہے گلال سے لب بنے ہیں اس میں کتاب چہرہ بنا ہوا ہے نگاہ اس کی ہے جھیل جیسی کمان جیسی بھوؤں کے نیچے تو سرخ ہونٹوں کے ایک جانب بھی تل کا پہرہ لگا ہوا ہے ہاں سبز قندیل جل رہی ہے بلا کی سرخی ابل رہی ہے ادا سے پلکیں جھکی ہوئیں ہیں حیا کا آنچل ...

    مزید پڑھیے

    نین ہیں یہ شراب اف توبہ

    نین ہیں یہ شراب اف توبہ نیم رخ پر حجاب اف توبہ سرمئی یہ نگاہ ہے قاتل ضرب کاری عذاب اف توبہ جام کے اک طرف ہیں میرے ہونٹ اک طرف وہ گلاب اف توبہ مرتعش دل ہوا ہے پھر ساکت حلق خشک دل خراب اف توبہ عشق میں اک فقیر پاگل دل حسن کا وہ نواب اف توبہ ہیں وہ آنکھیں سوال نامہ اب بس مرا اک جواب ...

    مزید پڑھیے

    بوسہ اک پیشانی پہ رکھا ہوا ہے

    بوسہ اک پیشانی پہ رکھا ہوا ہے سب منظر حیرانی پہ رکھا ہوا ہے پچھلا جھگڑا دو پل میں بھولنے کو یہ ملبہ نادانی پہ رکھا ہوا ہے پھر آتش رستہ مجھ کو ڈھونڈھتا ہے پاؤں میں نے پانی پہ رکھا ہوا ہے زندہ مردہ یادیں سبھی پار لگیں دل دریا طغیانی پہ رکھا ہوا ہے مشکل میں رکھا ہے ہم نے دل کو اور ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ کا اشارہ ہے

    آنکھ کا اشارہ ہے ہم پہ آشکارا ہے تیر نیم کش ہے کب یہ نظر تو آرا ہے ہے جو عشق کا چکر سر بہ سر خسارہ ہے درد کی حکومت ہے اور دکھ سہارا ہے اے مری متاع جاں ہم میں کیا ہمارا ہے دل کو غم ہیں دنیا کے اور دل تمہارا ہے ہجر دو گھڑی کا ہی آگ ہے شرارہ ہے مجھ میں ایک دریا ہے اور اک کنارہ ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2