کسی کا خط ہے یا یہ غزل ہے یہ کیسا پرچہ پڑا ہوا ہے

کسی کا خط ہے یا یہ غزل ہے یہ کیسا پرچہ پڑا ہوا ہے
گلال سے لب بنے ہیں اس میں کتاب چہرہ بنا ہوا ہے


نگاہ اس کی ہے جھیل جیسی کمان جیسی بھوؤں کے نیچے
تو سرخ ہونٹوں کے ایک جانب بھی تل کا پہرہ لگا ہوا ہے


ہاں سبز قندیل جل رہی ہے بلا کی سرخی ابل رہی ہے
ادا سے پلکیں جھکی ہوئیں ہیں حیا کا آنچل پڑا ہوا ہے


لو اب ہماری ثقیل آنکھیں قدیم رستوں پہ چل پڑی ہیں
وفا کے کھنڈر سے کچھ پرے ہی ہمارا ملبہ پڑا ہوا ہے


سفید بالوں کے پیچھے اپنی جوان عمری کے پل نہیں ہیں
ہے عہد طفلی کا ایک بوڑھا جو لڑکھڑاتا کھڑا ہوا ہے


بہت حسیں ہے یہ سچا موتی جو رنگ سے اس کے منسلک ہے
مگر اسے یہ خبر نہیں ہے ہمارا آنسو جڑا ہوا ہے


ہے چاپ اس کی ہماری دھڑکن جو دل میں دھک دھک لگی ہوئی ہے
فراق اس کا وصال ہی ہے وہ بن کے دھڑکا لگا ہوا ہے


بہت سنوارا مصوروں نے بہت سے ڈالے ہیں رنگ اس میں
مگر یہ صورت ہے میری صورت سو رنگ اس کا اڑا ہوا ہے