بوسہ اک پیشانی پہ رکھا ہوا ہے

بوسہ اک پیشانی پہ رکھا ہوا ہے
سب منظر حیرانی پہ رکھا ہوا ہے


پچھلا جھگڑا دو پل میں بھولنے کو
یہ ملبہ نادانی پہ رکھا ہوا ہے


پھر آتش رستہ مجھ کو ڈھونڈھتا ہے
پاؤں میں نے پانی پہ رکھا ہوا ہے


زندہ مردہ یادیں سبھی پار لگیں
دل دریا طغیانی پہ رکھا ہوا ہے


مشکل میں رکھا ہے ہم نے دل کو
اور خود کو آسانی پہ رکھا ہوا ہے


آنکھوں کو ویرانے سے ملنی ہے غذا
ویرانے کو ویرانی پہ رکھا ہوا ہے