ہماری آنکھ میں دو پل کی جو خماری تھی

ہماری آنکھ میں دو پل کی جو خماری تھی
ادھاری تھی وہ تمہیں دیکھ کر اتاری تھی


ہمارے شانوں پہ دن بوجھ تھا گھرانے کا
سفر میں شام کٹی رات بے قراری تھی


خلوص نام کا پنچھی تمہارے پاس نہ تھا
دغا تھا جھوٹ تھا تم میں فریب کاری تھی


تمہارے بعد نئے خواب کی تلاش میں تھے
ہماری پلکوں پہ وہ ایک رات بھاری تھی


اتارنے میں مری عمر صرف ہو گئی ہے
وہ دل لگی کی جو چھوٹی سی اک ادھاری تھی


ہماری جان گھلی جا رہی تھی کیا یوں ہی
بدن میں جاری وہی رسم جاں نثاری تھی