پہلی ویکسین کس نے ایجاد کی تھی؟

کورونا وبا کے اختتام پر ، آج ہر شخص " ویکسی نیٹڈ" (Vaccinated) ہونے کا دعویدار ہے۔اسی ویکسین کی بدولت آج کاروبار زندگی رواں دواں ہے ورنہ کورونا وبا نے ایک بار تو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور ہر شخص "کورنٹائن" ہو کر رہ گیا تھا۔ کورونا کی ویکسین کی تیاری کے بعد، بتدریج نظام زندگی بحال ہوا۔   لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ویکسین کا یہ عمل کس طرح شروع ہوا تھا۔  پہلی ویکسین کیوں اور کیسے بنائی گئی اور اسے بنانے کا  آئیڈیا کہاں سے حاصل کیا گیا تھا؟  چلیے آپ کو ویکسین کی کہانی سناتے ہیں۔

آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ویکسین کسے کہتے ہیں؟ اس ضرورت کیوں پیش آئی؟ پہلی ویکسین کیسے ایجاد ہوئی ؟ ویکسین سے پہلے وبائی امراض سے کیسے نمٹا جاتا تھا؟

ویکسین کسے کہتے ہیں؟

سب سے پہلے ویکسین کی تعریف کی بات کریں تو سادہ الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی مرض کے علاج کے لیےجو ویکسین لگائی جاتی ہے، وہ دراصل اسی مرض کے نیم مردہ یا کمزور وائرس پر ہی مشتمل ہوتی ہے۔ ان کے ناکارہ ہونے کی وجہ سے انسانی جسم، اس وائرس کے خلاف مدافعت (یعنی اینٹی باڈیز) پیدا کر لیتا ہے اور اس طرح مستقبل میں جب بھی یہ وائرس حملہ آور ہوتا ہے، تو انسانی جسم میں موجود یہ اینٹی باڈیز اسے فورا پہچان لیتی ہیں اور ان کا خاتمہ کر دیتی ہیں۔

حفاظتی ٹیکے لگنے کے بعد بچے کو بخار کیوں ہوجاتا ہے؟

آپ نے مشاہدہ کیا ہو گا کہ جب نوزائیدہ بچوں کو "حفاظتی ٹیکے " لگائے جاتے ہیں تو بچوں کو بخار ہو جاتا ہے۔ یہ حفاظتی ٹیکے دراصل مختلف بیماریوں کے کمزور وائرس ہی ہوتے ہیں۔ اور بچہ چند لمحوں کے لیے اس بیماری کا شکار بھی ہو جاتا ہے لیکن جسم کا مدافعتی نظام جلد ہی اس کے خلاف اینٹی باڈیز تیار کر لیتا ہے اور اس طرح بچہ ساری عمر کے لیے اس  وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔  نوزائیدہ بچوں کوقریباََایک درجن بیماریوں سے بچاکی ویکسین لگائی جاتی ہے جس سے وہ ان بیماریوں سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوجاتے ہیں۔

ویکسین سے پہلے وبائی امراض کتنے تباہ کن تھے؟

 آج چیچک، پولیو اورخسرہ جیسی خطرناک بیماریاں ہمارے ماحول میں موجودنہیں ہیں لیکن چندعشرے قبل جب یہ بیماریاں حملہ آور ہوتی تھیں توبلامبالغہ لاکھوں لوگ ان کاشکارہوکرموت کے منہ میں چلے جاتے تھے۔ خاص طورپرطاعون کی وباءنے چودھویں اورپندرہویں صدی کے دوران یورپ کی تقریباََ نصف آبادی کوہلاک کردیاتھا۔ چیچک کی وجہ سے بھی ایک صدی قبل تک ہرسال ایک لاکھ سے زیادہ افرادہلاک ہوتے رہے جبکہ کئی لاکھ افرادکے چہرے داغدارہوگئے تھے۔ بیسویں صدی کے آغازمیں پولیوکی وجہ سے ہزاروں افرادہلاک اورلاکھوں معذورہوگئے تھے۔ 1918ءمیں وبائی زکام(انفلوئنزا)سے ڈھائی کروڑافرادہلاک ہوئے تھے۔

لیکن پھرایک سادہ سی دریافت نے نہ صرف ان بیماریوں کوپھیلنے سے روک دیابلکہ انھیں تقریباََ جڑ سے اکھاڑکرپھینک دیا۔ یہ ”ویکسین“کی دریافت تھی۔ ویکسی نیشن کی بدولت نہ صرف کروڑوں زندگیاں بچائی گئیں بلکہ ان بیماریوں سے ہمیشہ کے لئے تحفظ بھی حاصل ہوا۔

پہلی وائرل بیماری  کون سی تھی جس نے کروڑوں لوگوں کی جان لے لی؟

دنیا میں سب سے پہلی وائرل بیماری "چیچک"(چے چَک) کی تھی جس نے کروڑوں لوگوں کی جان لے لی۔ قریباََ ڈیڑھ سوبرس پہلے تک اکثرچہروں پرچیچک کے داغ اورگہرے بدنمادھبے منقش نظرآتے تھے اوربرصغیراوردوسرے مشرقی ممالک میں توپچاس برس پہلے تک یہی حالات تھے۔ صاف ستھری اوربے داغ جلدگویااچنبھے کی بات تھی۔ جب لوگ ایک دوسرے کوگالی یابددعادیناچاہتے تویہی کہتے کہ خداکرے”تمہیں چیچک لگ جائے“۔ جب کبھی کسی علاقے میں چیچک کاحملہ ہوتاتوگھرکے گھرویران ہوجاتے تھے اورجوبچ جاتے، ان کی شکلیں بگڑ جاتیں اوران میں سے کئی اندھے ہوجاتے۔

وبا کا خوف  بھی انسان کے لیے کتنا مہلک ہوتا ہے؟

بعض اوقات مرض کاحملہ معمولی بھی ہوتاتھااورایسے لوگ جنھیں معمولی حملے سے سابقہ پڑتا، بڑے خوش نصیب سمجھے جاتے تھے کیونکہ اس مرض کوکسی ایک شخص پردوبارہ حملہ کرتے نہیں دیکھاگیاتھا۔ لوگ دعاکرتے کہ انھیں یہی ہلکی بیماری لگ جائے جسے سیتلا(veriola) کہاجاتاتھاتاکہ مہلک مرض سے توجان چھوٹے۔ بعض علاقوں میں تویہ ہلکامرض لگانے کی کوشش بھی کی جاتی تھی۔ جہاں کہیں سیتلاکاکوئی مریض موجودہوتا، لوگ چھوت لینے کے لئے دوڑدوڑکراس کے پاس جاتے تھے۔ ایشیائی طبیب اس بیماری کی چھوت لگانے کے لئے مریض کے خشک چھالوں کوسفوف استعمال کرتے تھے۔ تجربے نے انھیں یہ بات بتائی تھی کہ جب وہ پرانے سوکھے ہوئے چھلکے کام میں لاتے ہیں توہلکامرض نمودارہوتاہے جبکہ تازہ چھلکے استعمال کرنے سے مرض کی شدت اورہلاکت آفرینی بڑھ جاتی ہے۔

ترکی میں چیچک کا انوکھا علاج

1712ءمیں، قسطنطنیہ میں برطانوی سفیرکی بیوی لیڈی وارٹلے مونٹیگوجب اپنے شوہرکے ساتھ ترکی پہنچی تواس نے دیکھاکہ ترکی کی مقامی آبادی چیچک کاشکارنہیں تھی۔ حالانکہ اس وقت یہ بیماری برطانیہ میں ہزاروں افرادکوہلاک کررہی تھی۔ لیڈی میری وارٹلے خودبھی اس بیماری کاشکارہوچکی تھی اوراس کے چہرے پرچیچک کے داغ تھے۔ اس نے جلدہی جان لیاکہ بڑی عمرکی قبائلی عورتیں ایک عمل سرانجام دیتی ہیں جسے”سیتلاکاپیوند“کہاجاتاہے۔ اس نے اپنے خطوط میں لکھاکہ ”چیچک جوہمارے ہاں اس قدرعام اورمہلک بیماری ہے، یہاں اس کاپیوند لگاکراسے بے ضرربنالیاجاتاہے۔ ایک بوڑھیاایک ایسا چھلکالے کرآتی ہے، جوبہترین قسم کی چیچک کے مادے سے بھراہوتاہے۔ وہ اس مادے میں سوئی کی نوک ڈبوکررگ میں داخل کردیتی ہے اورزخم پرخالی چھلکاباندھ دیتی ہے۔ آج تک دیکھنے میں نہیں آیاکہ اس طریقہ علاج سے کوئی مریض ضائع ہواہو۔ میراارادہ ہے کہ میں اسے اپنے پیارے بچے پرآزماکردیکھوں۔“

1718ءمیں لیڈی واپس برطانیہ پہنچی۔ اس کے حلقہ احباب میں بڑے بڑے نواب اورحکومت کے سرکردہ افراد تھے۔انھوں نے جب اس کامیاب تجربے کااحوال سناتووہ متاثرہوئے۔ تاہم لیڈی وارٹلے کو مجبورکیاگیاکہ اس طریقہ علاج کواپنے بچوں پرآزمانے سے پہلے چندغیراہم لوگوں پرآزمایاجائے۔ پرنسزآف ویلزنے لیڈی وارٹلے کے اس طریقے کوسزائے موت کے مجرموں پرآزمانے کی اجازت دے دی۔ حاصل شدہ نتائج بہت حوصلہ افزاتھے، اگرچہ اس تجربے میں کچھ افرادہلاک بھی ہوگئے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ سیتلاکے پیوند سے اموات کی تعدادچیچک کے مقابلے میں بہت کم تھی لیکن یہ طریقہ بالکل بے ضرربھی نہ تھا۔ تاہم اس طریقے کوعام استعمال کیاجانے لگا۔

 ویکسین کیسے ایجاد ہوئی اور اس کا موجد کون تھا؟

انگلستان کا ایک سرجن ایڈورڈجینر( Edward Jenner) جب1794ءمیں اپنے آبائی علاقے گلاسٹرشائرپہنچاتووہ بھی اپنے مریضوں کوسیتلاکاپیوندلگایاکرتاتھا۔ جینراپنے وطن پہنچ کربہت خوش تھاکیونکہ یہ علاقہ بڑاسرسبزوشاداب تھااوریہاں لندن کے وحشت ناک ہسپتالوں والاماحول نہ تھا۔ خاص طورپریہ بات کہ شہرکے مقابلے میں یہاں کی لڑکیاں زیادہ خوبصورت تھیں اورگوالنوں کی رنگت توواقعی بڑی دلفریب تھی۔ جینرنے محسوس کیاکہ گوالنیں کبھی چیچک کاشکارنہیں ہوتیں، تاہم تمام گوالنوں کو کبھی نہ کبھی چیچک نکلی ضرور تھی۔ ان گوالنوں نے بتایاکہ جب انھوں نے ایسی گائے کادودھ دوہا، جس کے تھنوں پردانے نکلے ہوئے تھے، توان کے اپنے ہاتھوں پربھی چیچک جیسے چند دانے نکل آئے تھے جوچنددن بعدہی ختم ہوگئے تھے۔ اس کے بعدبھی اکثروبیشترجینرکے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ گوالوں اورچرواہوں کوسیتلاکاپیوندلگانے سے اکثردانے نہیں نکلتے اورجب ان سے گزشتہ زندگی کے حالات دریافت کئے جاتے ہیں توبس ایک ہی بات دہرائی جاتی ہے کہ گائے کی چھوت سے ہاتھوں پردانے نکلے ضرورتھے لیکن چیچک کامرض کبھی نہیں ہوا۔ ایک عورت نے باتوں باتوں میں بتایاکہ اگرہاتھوں پردانے نکل آئیں توچیچک نہیں ہوتی۔

گائے کے چیچک سے انسانی چیچک کا علاج

ان مشاہدات سے جینرنے یہ نتیجہ نکالاکہ گائے کی چیچک اورانسانی چیچک ایک ہی طرح کی بیماریاں ہیں۔ اس لیے اگرگائے کی چیچک کی چھوت سے انسان چیچک کے وبائی حملے سے بچ جاتے ہیں توکیوں نہ گائے کی چیچک کے مادے کاپیوندلگایاجائے، کیونکہ گائے کی چیچک ایک بے ضررسی بیماری ہے۔ اس نے گائے کی چیچک کی شکارگوالنوں کے چھالوں سے لیے گئے موادکو20بچوں میں داخل کیا۔ تمام بچے گائے کی چیچک کاشکار ہوگئے۔ ان بچوں کے ہاتھوں پرتکلیف دہ چھالے نمودارہوئے جوکئی دن تک موجودرہے اورپھرغائب ہوگئے۔ دوماہ بعد، جینرنے زندہ چیچک کے جراثیم انھی بچوں میں داخل کیے۔ اگرجینرکانظریہ غلط ہوتاتوان میں سے کافی بچے مرجاتے، لیکن ان بچوں میں سے کسی میں بھی چیچک کی علامات ظاہرنہ ہوئیں۔ جینرنے جب 1798ءمیں اپنے نتائج شائع کرائے تواپنے اس عمل کوبیان کرنے کے لئے”ویکسینیشن“کالفظ استعمال کیا۔ یہ اصطلاح دولاطینی الفاظ، ”vecca“بمعنی گائے اور”vaccinia“بمعنی گائے کی چیچک ، سے بنائی گئی تھی۔ جینرکو1803ءمیں حکومت انگلستان نے6000پانڈکاانعام دیاکیونکہ اس نے تاریخ کی سب سے بڑی بیماری کوجڑ سے اکھاڑ پھینکاتھا۔ جینرکی اس دریافت کواٹھارہویں صدی کاسب سے عظیم طبی کارنامہ تسلیم کیاجاتاہے۔ جینر کو "بابائے ویکسینولوجی" بھی کہا جاتا ہے۔ 1979ءمیں چیچک سے مکمل تحفظ کااعلان کیاگیا اورعالمی ادارہ صحت (WHO)کی طرف سے امریکی صدرجارج ایچ بش نے یہ اعلان کیاکہ اس وقت دنیامیں چیچک کاایک بھی مریض موجودنہیں ہے۔

وائرل بیماری سے بچاؤ کے لیے ویکسین ضروری

اس طرح بتدریج ایسی تمام بیماریوں کی ویکسین تیار کر لی گئی جو وائرس سے پھیلتی ہیں۔اس وقت بچوں کو خسرہ، پولیو، خناق، تشنج ، ہیپا ٹائٹس اے اور بی اور فلو (انفلوئنزا) کی ویکسین لگائی جاتی ہے۔  دنیا بھر میں وائرس کی وجہ سے  سب سے زیادہ پھیلنے والی بیماری زکام یعنی فلو ہے۔ آج تک فلو کی کوئی کارآمد ویکسین نہیں بنائی جا سکی کیونکہ فلو کا وائرس بہت تیزی سے اپنے آپ کو تبدیل (mutate) کرتا رہتا ہے اور نئی نئی شکلیں بدل کر حملہ آور ہوتا رہتا ہے۔ کورونا بھی چونکہ ایک طرح کا فلو وائرس ہے، اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ کورونا کی نئی نئی اقسام سامنے آ رہی ہیں۔ 

ویکسین کی ابتداء سے متعلق مزید جاننے کے لیے یہ ویڈیو پیشکش (پری زینٹیشن) ملاحظہ کیجیے۔

 

متعلقہ عنوانات