عورت کی عزت: تربیت میں کہاں کمی رہ گئی؟

دنیا کے شب و روز حاصل و لاحاصل کے دائرے کے گرد گھوم رہے ہیں۔ حاصل کی ناشکری اور لاحاصل کا غم انسان کی زندگی کو پریشان کن بنادیتا ہے۔ انسان کو ہر حال میں خالق کائنات کا شکر گزار ہونا چاہیے اور جو نہیں ملا اس پر صبر کرنا چاہیے۔ شادی ہونا اور اولاد ہونا دنیاوی زندگی کا حصہ ہے ۔کوئی اعزاز یا کسی کا کمال نہیں ہے۔ بعض لوگوں کو اللہ پاک بیٹوں سے نوازتا ہے اور بعض کو بیٹیوں سے نوازتا ہے۔ کچھ کی جھولیاں خالی رہ جاتی ہیں۔

اگر اولاد کا نہ ہونا محرومی اور بد نصیبی ہے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اللہ پاک کائنات کی افضل ترین خواتین میں سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا کو اولاد جیسی نعمت عطا نہ کرتا۔ جب خالق عطا کرنے پر آتاہے تو حضرت مریم علیہ السلام جیسی پاک دامن مومنہ کو بغیر شادی کے بیٹے جیسی نعمت سے نوازتا ہے۔ عورت کو اولاد ہونے یا نہ ہونے پر جانچنا۔۔۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں وہ عورتیں جو بچے پیدا نہیں کرپاتی یا ان کی اولاد میں صرف بیٹیاں پیدا ہوں تو ان کو نفسیاتی اور سماجی طور پر عزت سے نہیں نوازا جاتا۔

ہمارے معاشرے میں یہ ایک المیہ ہے کہ شادی ہونے کے فوری بعد ہی اولاد، اولاد کی رٹ لگائی جاتی ہے۔ اس سے بڑھ کر ایک اور جو معاشرے کی گراوٹ ہے کہ دعاؤں میں اولاد نرینہ مانگی جاتی ہے ؟ جب کہ اولادکی نعمت تو خالق کا عطیہ ہے۔ وہ جسے چاہے لعل دے جسے چاہے گوہر سے نوازے۔ معاشرے کی ستم ظریفی ہے کہ معاشرے میں بیٹیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ جو زندگی والدین کے گھر میں گزارتی ہیں اس میں جب کوئی مہمان گھر آئے تو اس کی خدمت پر یہ مامور ہوتی ہیں۔ پھر یہ ہی مہمان سوالیہ انداز میں پوچھتا ہے کہ آپ کا بیٹا نہیں ہے ؟ اگر جواب "نہیں" میں ملے تو تاسف کا لمبا سانس کھینچتا ہے۔

 زیادہ بیٹیوں والا انسان بعد میں بیٹیوں کے رشتوں کے لیے پریشان رہتا ہے۔ جہیز کی تیاری کے لیے اس کے بال سفید ہوئے جاتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی ایسا رشتہ مل جائے جن کی یہ سب ڈیمانڈ نہ ہوں۔ اول ایسا رشتہ ملتا نہیں ۔ مل جائے تو بعد میں  پیچ وخم چلتے رہتے ہیں۔ سسرال کے طعنوں ، خاوند کا جا بے جا لڑائی جھگڑا اور گھریلو ناچاقیوں سے خاتون بے بس اور بے زار ہوجاتی ہے۔ اگر تو شریک حیات اچھا میسر ہو جس کے لیے یہ رسوم زمانہ اہمیت نہ رکھتی ہوں تو عورت کے لیے خوش قسمتی کا عندیہ ہوتا ہے۔ اگر شریک حیات ایسا ہو جو خود عقل سے عاری ہو ۔جس کے پاس خود فیصلہ کرنے کی سکت نہ ہو۔ جوسماج اور رشتے داروں کی خوشی اور غمی کے لیے ہلکان ہوتا ہو کہ لوگ کیا کہیں گے۔ ان سے سیکھ کر اپنے گھر کا ماحول خراب کردے۔ اگر کسی کو اللہ پاک نے بیٹا دیا ہے اور اس کو نہیں دیا تو حسد کی آگ میں کڑھتا رہے اور اس کا نشانہ اپنی بیوی کو بنائے۔ ایسے شخص سے شیطان مردود بھی پناہ مانگے گا۔

غور کی جیے کہ اس سوچ اور رویے کی وجوہات کیا ہیں۔۔۔کیا سارا قصور عورت کا ہی ہے۔۔۔؟ یاد رکھیے گھر بسانے میں عورت کے ساتھ ساتھ مرد بھی برابر کا حصے دار ہے۔ شادی ایک معاہدہ ہے جو اللہ کے نام پر باندھا جاتا ہے۔ میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں ، دونوں ساتھ چلیں گے تو ہی زندگی کا سفر کٹے گا۔ خطبہ نکاح میں جو آیات اور احادیث دہرائی جاتی ہیں وہ ایک طرح کا چارٹر آف لائف ہیں۔ ان آیات میں یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت و احترام کا معیار تقویٰ پر ہے۔ خطبہ نکاح کے وقت میاں بیوی اور رشتہ داروں کو خدا اور اس کے رسول ﷺ کا پیغام سمجھایا جارہا ہے ہوتا ہے کہ شادی کا بندھن باہمی سمجھوتے، باہمی احترام، صبر وتحمل اور خوش کلامی کا تقاضا کرتا ہے۔

ازدواجی  تعلق صرف انسانی شہوت کو تسکین پہنچانے، اولاد پیدا کرنے یا محض ایک رسم کو پورا کرنے کا نام نہیں ہے۔ بلکہ ایک صحت مند، پُر امن اور خوشحال سماج کی بنیاد ڈالنا ہے جہاں مرد اور عورت مل کر اس دنیا کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کی عملی آماج گاہ بنائیں گے۔میاں بیوی کو تربیت کی ضرورت ہے۔ مرد کو بتایا جائے کہ جس عورت کے ساتھ اس نے اللہ کے نام پر رشتہ استوار کیا ہے وہ بھی انسان ہے، اسے بھی مرد کی طرح ہمدردی، عزت و احترام، خیرخواہی اور الفت و محبت کی ضرورت ہے۔ اسلام ایسا مذہب ہے جس نے عورت کے حقوق متعین کردیے۔ اس کو برابری کی سطح پر رکھا۔ زمانہ جاہلیت میں بیٹیوں کو دفن کیا جاتا تھا ہمارے آقائے دوجہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بدعت اور ناسور کو معاشرے سے ختم کیا۔ عورت کا مقام اتنا بلند کیا کہ جنت اس کے قدموں کے تلے رکھ دی۔ ڈیڑھ صدی بعد بھی ہمارا معاشرہ دور جاہلیت جیسے رویوں کا شکار ہے۔ اس کشمکش میں بعض خواتین خود کشی کے مرحلے سے گزر جاتی ہیں اور اپنی جان تک قربان کردیتی ہیں۔

 ہمارے بعض شادی دہ مرد باہر دوستوں میں اور لوگوں کے ساتھ اچھے کردار کے مالک ہوتے ہیں جیسے گھر میں قدم رکھتے ہیں جلاد اور پھوہڑپن کا نمونہ پیش کررہے ہوتے ہیں۔ حالاں کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ تم سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہترین ہو۔ یہی مرد پھر گلہ کرتے نظر آئیں گے کہ بیوی نکمی اور ناہنجار ہے اور بچے عزت نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں ایک عمومی رویہ ہے کہ  جب ایک نوجوان بگڑ جاتا ہے۔ نشے کی لت پڑجاتی ہے، نفسیاتی ہوتا ہے یا جنونی ہوتا ہے تو خاندان کے سرپنچ مل کر فیصلہ کرتے ہیں کہ اس کی شادی کردو خود ہی سدھر جائے گا۔

 یہاں یہ بات سوالیہ نشان ہے کہ وہ کیسے صحیح ہوجائیگا؟ جس لڑکے کو والدین بیس،پچیس یا تیس سال میں صحیح نہیں کرپائے۔ جس میں اخلاقیات پیدا نہیں ہوسکیں۔ گھر میں اسے ماں بہن کی تمیز نہیں سکھائی گئی تو آنے والی گھر میں جو پیچھے ایک خاندان چھوڑ کر آرہی ہے المیہ تو یہ ہے کہ خاوند اسے گھر میں بسائے اس کا دل لگائے بلکہ الٹا کام تو یہ ہے کہ وہ آکر اسے صحیح کر لے گی۔ جس کی نہ ساس نے سننی ہے نہ سسر نے۔ نہ نندوں نے ساتھ دینا ہے۔ کیسے وہ تن تنہا آکر ایسے وحشی کا مقابلہ کریگی ؟ انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے ۔ بگڑ جائے تو تمام مخلوقات سے گر جاتا ہے۔ تب ایسے گھر بیاہ کر آنے والی عورت اندر ہی اندر کڑھتی رہتی ہے۔ مسلسل طعن و تشنیع کا سامنا ،الزامات اور مار دھاڑ اس کو خود کشی کے دہانے پر پہنچا دیتی ہے۔

 جناب والا یہ خود کشی نہیں ہے ،یہ قتل ہے۔ پورے معاشرے کا قتل جس کا ذمے دار ان سیانوں اور سرپنچوں کا فیصلہ ہے جس کا مقصد تھا کہ لڑکا صحیح ہوجائیگا۔ لڑکا صحیح نہیں ہوا ایک انسانی جان ختم ہوگئی ۔ ایک نسل کی ماں ختم ہوگئی۔ صد افسوس ! معاشرے میں عائلی قوانین متعارف کروائے گئے ہیں۔ ان پر عمل درآمد قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ہے اور اس سے زیادہ ذمے داری لڑکے کی ماں اور اس کے باپ پر ہے جو اس کی پہلی درسگاہ تھے۔

 

 

متعلقہ عنوانات