رمضان میں اللہ کی قربت کیسے حاصل ہو؟

رمضان المبارک کی ہر رات اللہ تعالیٰ کا منادی ندا لگاتا ہے:

اے نیکی کے طالب اور متلاشی ! قدم بڑھا  (نیک راستے کی جانب) آگے آ،  اور اے بدی اور گناہ کے دلدادہ! آگے نہ بڑھ رُک جا۔

روزہ دار خد تعالیٰ کی بادشاہی کا مہمان ہوتا ہے۔  ماہ رمضان میں مومن کا ہر عمل عبادت شمار ہوتا ہے۔ یاد الٰہی  اور خشیتِ الٰہی میں بہائے جانے والے آنسو آتشِ دوزخ کو بجھا دیتے ہیں۔ اس ماہ کی ایک خاص فضیلت ہے کہ اس میں ایک ایسی رات بھی آتی ہے جسے اللہ پاک نے ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا ہے۔اللہ کے آخری نبی ﷺ کا فرمان ہے:"اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا ہے تو میری اُمت  تمنا کرتی کہ کاش! پورا سال رمضان ہی ہو۔"(ابن خزیمہ) صد افسوس ہے اس شخص  پرجس کی زندگی میں ماہ رمضان آئے اور وہ اس کی برکتوں سے محروم رہ جائے۔ رمضان المبارک میں اللہ پاک اپنے بندہ سے فرماتا ہےکہ اے میرے بندے! روزہ صرف میرے لیے ہے اور اس کا اجر بھی میرے ذمے ہے بلکہ روزہ کا اجر میں خود ہوں۔ گویا جب ایک مومن حالت روزہ میں ہوتا ہے تو وہ اپنے خالق کی رضاکو پالیتا ہے۔ قرب الٰہی کا حصول ممکن ہوجاتاہے۔

رمضان کے تین عشروں کی تقسیم اس طرح ہے: عشرہ رحمت ،عشرہ مغفرت اور عشرہ نجات۔ ان عشروں کی ترتیب بہت خوبصورت اور فطری ہے ۔ پہلے عشرے میں بندہ   خدا تعالیٰ سے کی رحمت کے طلبگار رہتا ہے۔ دوسرے عشرے میں وہ رحیم خالق اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے کہ ہے کوئی جو مجھ سے اپنے گناہوں کی توبہ مانگے؟ توبہ کی قبولیت کے بعد تیسرا عشرہ نجات کا ہے۔یہ نجات دوزخ سے نجات ، خدا کی قہر سے نجات اور خالقِ کائنات کی ناراضی سے نجات ہے۔ اس بابت حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کی ایک دعا ہے جس میں وہ اپنے خالق سے دعاگو ہیں: " اے اللہ میرا تیرے سوا کون ہے ، میں آخرت کی سختی کو کیسے برداشت کر پاؤں گا ، یہ وہ زندگی ہوگی جو دائمی ہوگی۔ اس میں جو پھنس جائے گا اس کے عذاب میں کبھی تخفیف نہیں کی جائے گی۔کیونکہ وہ عذاب تیرے غضب ،تیرے انتقام اور غصہ کے سبب ہوگا۔ تیرے غصے کو نہ آسمان برداشت کرسکتا ہے اور نہ ہی زمین۔ اے میرے اللہ میں نحیف ہوں میری تیرے غصے کے سامنے کیا حالت ہوگی ، اے اللہ میں تیری رحمت کا طلبگار ہوں۔ اے اللہ مجھے تیری ذات سے معافی کی امید لگی ہوئی ہے۔ اے اللہ میں تیرے فضل اور تیری رحمت کی آس لگائے بیٹھا ہوں۔ اے اللہ تو میری کمزوری سے واقف ہے۔تو مجھے معاف فرما۔اے اللہ پاک! مجھے تیری ذات کا آسرا ہے ۔میں اپنی شکایات تیرے حضور پیش کرتاہوں۔ اے میرے مالک تیرا نام بذات خود دوا ہے۔ تیرا ذکر ہر بیماری کی شفاء ہے اور جب تو عطا کرتا ہے تو بندے کو غنی کردیتا ہے۔میری لغزشوں اور کوتاہیوں کو بخش دے۔ دوزخ کی آگ سے ہمیں بچالے۔" دراصل اس دعا میں اللہ پاک سے اس کی رحمت کے حصول کی دعا، مغفرت کا سوال اور دوزخ سے نجات کے لیے استغاثہ ہے۔

آخری عشرہ میں اعتکاف میں بیٹھا جاتا ہے کہ انسان تنہائی میں اپنے رب کے حضور استغاثہ کر سکے۔ معافی طلب کر سکے۔ ماہ رمضان کی آخری رات خدا کے مہینے کو الوداع کہنے کی رات ہے۔ اس رات کی بہت فضیلت ہے۔ اپنے گناہوں کی معافی کے لیے کثرت سے استغفار پڑھا جائے۔ اس طرح جب چاند رات آتی ہے تو اپنے پورے ماہ کی محنت کا اجر وصول کیا جائے۔ عموماً چاند نظر آتےہی جو رمضان کے مبارک مہینے میں عبادت کی روح پیدا ہوتی ہے اس کو ختم نہ ہونے دیاجائے۔ اس رات بیدار رہنا، مخصوص دعائیں پڑھنا اور غسل کرنا افضل ترین اعمال ہیں۔ اس رات کو فطرانہ چاہے جنس کی شکل میں ہو یا نقدی کی صورت میں ہو اسے الگ کیا جائے اور مستحقین تک پہنچایا جائے۔ اپنے مرحومین کی بخشش کے لیے دعا کی جائے۔ کیونکہ بہت سے ہمارے مرحومین جو پچھلے سال رمضان کے ماہ میں ہمارے ساتھ تھے اب نہیں ہیں ۔ ان کے حق میں دعا کی جائے۔ اللہ پاک ہمیں اس مقدس ماہ میں نیک اور صالح اعمال بجا لانے کی توفیق دے اور دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھے۔۔آمین

منادی دینے والا مسلسل ندا دے رہا ہے:

اے نیکی کے طالب اور متلاشی ! قدم بڑھا  (نیک راستے کی جانب) آگے آ

اور اے بدی اور گناہ کے دلدادہ! آگے نہ بڑھ ، باز آ، رُک جا۔