انسان، شوق اور تکمیل

اہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں کہ جدھر بچوں کو صرف دو یا تین راہیں بتائی جاتی ہیں کہ آپ ڈاکٹر بن جاؤ، آپ انجینیئر بن جا ؤ یا آپ سی ایس ایس کر لو ۔ بہت قدر ہے ان شعبوں کی ۔ تم تو دونوں ہاتھوں سے کماؤ گے۔ دولت کی ریل پیل ہو جائیگی۔

کبھی بچے کے شوق دیکھیں کہ وہ کیا چاہتا ہے ؟ اگرچہ آج کے بچے موبائل کے استعمال سے ویسے ہی بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مگر اس دور میں بھی سنجیدہ بچے موجود ہیں ۔جن کے اپنے نظریات ہیں، تخیل ہیں اور اس پر کیسے کاربند رہنا ہے وہ باخوبی جانتے ہیں۔ میں ایک اوسط درجہ خاندان کا فرد ہوں ۔ میں بھی باقیوں کی طرح ان تین شعبوں کے آپشنز کے گرد گھومتا رہا۔ میرےخاندان کا تعلق زیادہ تر محکمہ تعلیم سے ہے۔ امتحانات کی تیاری، مقابلے کے امتحان جو پنجم اور ہشتم کی سطح پر ہوتے تھے اس وقت طلبہ و طالبات کا جذبہ دیدنی ہوتا تھا ادھر میں 2005 ء تک کے طرز امتحان کی بات کر رہا۔ پھر نتیجہ سے ایک رات قبل کی بے چینی ، پوزیشن ہولڈرز کو ایک رات پہلے پوزیشنز کا بتایا جانا بہت ہی دلچسپ امر رہا ہے۔ بندہ خود ان مراحل سے گزرا ۔ الحمد للہ ، پنجم ، ہشتم اور میٹرک میں امتیازی نمبر حاصل کیے۔ لیکن ساتھ ہی ایک استاد جیسا بننا سرشت میں شامل تھا۔ زمانہ طالبعلمی میں محلے کے بچوں کو اکٹھا کرنا اور گھر میں ان کو پڑھانا بہترین شغل تھا۔ کوشش کرتا تھا جو آج پڑھا ہے کسی کو پڑھا دوں اس طرح مجھے اپنا سبق یاد ہوجاتا تھا۔ کل جب میں نے سر نذیر احمد صاحب کی ریٹائرمنٹ کے سلسلے میں شیلڈز بنوائیں تو میں ماضی کے دنوں کو یاد کرنے لگا۔

محلے کے بچوں کو چھت پر اکٹھا کر کے ، ان کے ٹیسٹ بنا کر ، اپنی جیب خرچ سے ٹیسٹ فوٹو اسٹیٹ کروانے ، بعد ازاں نتائج تیار کرنے اور پوزیشن ہولڈرز میں میڈل تقسیم کرنا بہت اچھالگتاتھا۔ رزلٹ کارڈز کی تیاری کرنا، سپرنٹنڈنٹ ،ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اور نگرانوں کا کردار ادا کرنا بہترین مشغلہ تھا۔ سال 2013 ء میں بندہ نے نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی ( نسٹ ) سے انجینئرنگ کی ڈگری مکمل کی۔ مگر ہمہ وقت اندر کا استاد میرے انجینئر پر حاوی رہا۔ ایکسل انجینئرنگ لمیٹڈ جو کہ لاہور کی ایک بہترین فاؤنڈری ہے اور ملت ٹریکٹرز جیسے اداروں سے منسلک رہا مگر زیادہ سے زیادہ دو یا تین مہینے وہاں گزارتا تھا۔ مشینوں کا شور، لوہے کا پگھلنا اور ہتھوڑوں کا بجنا دن کو غارت کرتا تھا اور پورا دن ایک منظر دیکھ دیکھ کر بالآ خر انڈسٹری کو ایک مکمل اور مضبوط فیصلے کے ساتھ خیر آباد کہہ دیا اور انجینئرنگ میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم فل کیا اور سلور میڈل حاصل کیا۔ لاہور اور میلسی کے کئی پرائیویٹ اداروں سے وابستہ رہا۔ بالآخر 2017 ء میں جب میری گورنمنٹ ملازمت میں تعیناتی بطور اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر میلسی ہوئی تب یہ تہیہ کیا کہ تعلیمی سرگرمیوں کو بہتر سے بہتر بناؤنگا۔ اس بابت کوشش کرتا رہتا ہوں اور اللہ پاک سے کامیابی کا طلبگار رہتا ہوں۔ بلاشبہ انسان جس چیز کو پانے کی جستجو کرتا ہے وہ پالیتا ہے۔ زندگی کے ہر لمحہ میں خالق کائنات  کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

متعلقہ عنوانات