رمضان کو اگلے رمضان تک جاری رہنا چاہیے
رمضان المبارک تین عشروں میں رحمت, مغفرت اور جہنم کی آگ سے آزادی کی نوید سناتا رخصت ہوا۔جس میں تمام مسلمان تہجد سے لیکر عشاء کی نماز تک عبادات میں مصروف رہتے ہیں۔ رات کا جب آخری پہر گزرتا ہے تو حکم خداوندی سے مسلمان سحری کا انتظام کرتے ہیں اور کھانا تناول فرماتے ہیں۔ اس کے بعد اذان فجر ہوتی ہے۔ مساجد آباد ہوجاتی ہیں۔ مسلمان مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ چھوٹے بڑے سب مساجد میں اکٹھے ہوتے ہیں اس طرح نماز عشاء تک عبادات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ تراویح کے اوقات میں بڑے مسحور کن منظر ہوتے ہیں۔قرآن پاک کی تلاوت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ رمضان کے ماہ میں مسلسل تیس دن یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور پورا ختم قرآن ہوتا ہے۔ صبح سے شام تک مسلمان بھوک و پیاس کے عالم سے گزرتا ہے۔ تب اسے بھوکے، پیاسے اور مستحق انسانوں کی ضرورتوں اور مجبوریوں کا احساس ہوتا ہے۔
رمضان کے آخری عشرہ میں مساجد آباد ہوجاتی ہیں۔ بسلسلہ اعتکاف مسلمان مساجد میں تنہائی اختیار کرتے ہیں اور عبادات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ تنہائی کے عالم میں انسان اللہ پاک کا قرب پالیتا ہے۔ معرفت خداوندی کا حصول ہوتا ہے۔اس عشرے کی طاق راتوں میں لیلتہ القدر آتی ہے۔ جو ایک رات ہزار راتوں سے افضل ہے۔ جس میں کی جانے والی عبادات ہزار راتوں کی عبادات سے افضل ہیں۔ انتیس یا تیس روزے گزرنے کے بعد چاند رات آتی ہے۔ جو رات تمام مسلمانوں کے لیے باعث مسرت ہوتی ہے۔ اگلے دن علی الصبح تمام مسلمان مساجد کا رخ کرتے ہیں ۔ نماز فجر کی ادائیگی، بعد ازاں نماز عید الفطر کے اجتماعات میں شرکت اور نماز کے بعد تمام مسلمانوں کا ایک دوسرے کو بغل گیر ہونا اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دیتا ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا فرمان ہے کہ مومن کے لیے ہر وہ دن عید ہے جس دن وہ گناہ نہ کرے۔ جیسے ہی یہ ماہ گزرتا ہے تو عبادات کا سلسلہ مفقود ہوجاتا ہے۔ عید کی خوشیوں میں عبادات کا مسلسل ماہ رہنے والا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔ مساجد ویران ہوجاتی ہیں۔ نمازوں میں غفلت شروع ہو جاتی ہے۔ بلکہ عید کے دن کو عیاشی کا دن سمجھا جاتا ہے۔ پارکوں اور ہوٹلوں کا رخ کیا جاتا ہے۔ نماز کے اوقات گزر جاتے ہیں۔ مسجد میں مؤذن اکیلا ہوتا ہے۔ تب مساجد مسلمانوں کی بے پرواہی پر گریہ کناں ہوتی ہیں۔پوری چاند رات اونچے اونچے آوازوں میں گانے ٹیپ ریکارڈرز پر سنے جارہے ہوتے ہیں تب عبادت کی روح فنا ہوجاتی ہے۔
پورا ماہ بھوکا پیاسا رہ کر غریب اور مستحق لوگوں کی مجبوریوں کا جو احساس پیدا ہوتا ہے اس کا اثر ان تیس دنوں کے بعد عموماً نظر نہیں آتا۔ غریب لوگوں میں فطرانے کی ادائیگی کا عمل غربت کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر اسی طرز کو سارا سال اپنایا جائے تو غربت کا سلسلہ ختم ہوسکتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں نظام زکوٰۃ اتنا مضبوط تھا کہ غریب لوگ غربت کی لکیر سے اوپر آگئے تھے۔ زکوٰۃ دینے والے ہاتھ میں زکوٰۃ لیکر پھرتے تھے زکوٰۃ لینے والا کوئی نہ ہوتا تھا۔
اب ہمیں اپنا احتساب کرنا ہوگا آیا رمضان اور عید کے بعد ہم میں عبادت کی روح اور تفکر پیدا ہوا ہے۔ کیا ہم مقصد ماہ رمضان کو سمجھ پائے ہیں یا صرف بھوکے پیاسے رہنے کی ریاضت کی ہے۔ اگر ہم ماہ رمضان المبارک کو اپنی زندگیوں میں راسخ نہیں کرپائے تب یہ ایک المیہ ہے اور ہم سب کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ اللہ پاک ہمیں اپنی زندگیوں میں اسلام کو راسخ کرنے میں مدد کرے۔ آمین