گردِ راہ: اختر رائے پوری کی حقیقت پر مبنی آپ بیتی

اردو ادب میں نثر نگاری کے کئی اسالیب ہیں۔ ان اسالیب میں مضمون نگاری،انشائیہ نگاری ، ڈرامہ نگاری ،داستان گوئی، سوانح عمری اور آپ بیتی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ کسی انسان کی زندگی پر جب کوئی دوسرا شخص لکھتا ہے تو اس کا انداز مختلف ہوسکتا ہے ۔ اگر وہ کسی شخصیت سے زیادہ متاثر ہے تو اس کے بارے میں زمین اور آسمان کے قلابے ملادے گا اور اگر اس کی شخصیت اس کی سوچ کے متضاد ہے تو طنز کے نشتر چلادے گا۔اردوادب میں بہت کم صاحب اسلوب شخصیات اور ادیب ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں اپنی خود نوشت ،ڈائریوں کی شکل میں لکھی۔ جیسے انسان اپنی روزمرہ کی مصروفیات کو اپنی ڈائری میں قلم بند کرتا ہے۔

بعد ازاں اس شخصیت کے گزر جانے کے، لوگ ایسی شخصیات کی آپ بیتی پڑھتے ہیں اور اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔آج ہمارے زیر نظر ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کی خود نوِشت" گَردَراہ" ہے۔  ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کا سلسلہ نسب سادات خاندان سے ملتا ہے۔ آپ کو سات زبانوں پر ملکہ و دسترس حاصل تھی۔ آپ بیک وقت ترجمہ نگار،افسانہ نگار اور بہترین نقاد تھے۔" گرد راہ " آپ کی خود نوشت ہے جو بیس ذیلی مضامین پر مشتمل ہے۔ آپ کی یہ آپ بیتی سچائی پر مبنی ہے۔ آپ نے اپنی زندگی کو تصنع کا خول نہیں پہنایا۔ جو لکھا سچ لکھا۔ آپ ایک سرکاری افسر تھے۔ بطور سرکاری افسر آپ نے بہت سے ممالک کے سفر کیے۔ آپ کے سینے میں حکومت کے بہت سے راز تھے۔ "گرد راہ" آپ کی اپنی خود نوشت ہے مگر اس کے اقتباسات آپ نے اپنی ڈائریوں سے لیے ہیں جو آپ روزمرہ زندگی میں لکھتے تھے۔ یہ کتاب آپ نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد لکھنا شروع کی اور اسے اردو ادب میں نمایاں مقام ملا۔ جن دنوں  آپ کتاب لکھ رہے تھے بیماری اور ضعیفی کی وجہ سے بینائی ختم ہوگئی مگر کتاب مکمل کرنے کا جذبہ جوان تھا۔ آپ نے باقی حصہ اپنے شاگرد سے لکھوایا۔ آپ اسے بلایا کرتے تھے اور ساری کہانی سنایا کرتے تھے پھر آپ کا شاگرد اسے کاغذپر رقم کرتا تھا۔  کہاجاتا ہے کہ جب انسان کی بصارت ختم ہوجاتی ہے تو بصیرت زیادہ ہوجاتی ہے۔ یہی حال آپ کی کتاب میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جو حصہ آپ نے شاگرد سے لکھوایا وہ پہلے حصے کی نسبت زیادہ مضبوط اور پر تاثیر ہے۔ آپ نے کافی سرکاری رازوں سے پردہ اٹھایا۔ کیونکہ آپ ان سب کے چشم دید گواہ تھے۔ آپ کی دیانتداری اور غیر متعصبانہ انداز آپ کی آپ بیتی کو ذاتیات سے پاک کرتا ہے۔ کتاب "گرد راہ" تین حصوں پر مشتمل ہے۔ جس میں آپ کی تلخی، رویے میں توازن اور مزاج کی نرمی جانچی جاسکتی ہے. آپ کی پیدائش تشکیل پاکستان سے قبل کی ہے. اس لیے آپ کی کتاب میں سیاسی منظر نامہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ آپ کی کتاب آپ بیتی کم اور جگ بیتی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ آپ بہترین نقاد ہونے کے ناطے اردو ادیبوں کے بارے میں تبصرے کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ جو جیسا ہے اس کو من و عن بیان کیا کیونکہ جب بات میں ذرا سا بھی ردوبدل آجائے تو بات سچ نہیں رہتی جھوٹ بن جاتی ہے اور یہ ہی مشورہ آپ نے صحافت سے منسوب لوگوں کودیا۔ ادبی منظر نامہ ہو یا سیاسی دونوں میں آپ کی گرفت مضبوط نظر آتی ہے. آپ کی تحریروں میں بسا اوقات جذباتی پن نظر آتا ہے جیسے انسان ماحول کی منافقت سے کڑھتا ہے۔آپ کی تحریروں میں زبان و بیان کی تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں کہ پڑھنے والا قاری اکتاتا نہیں۔ بین الاقوامی تعلقات کو بہت خوب صورت پیرایے میں بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ ممالک کے تعلقات اور خارجہ پالیسیوں کو بہترین انداز میں مرتب کیا ہے۔آپ کی آپ بیتی سے قاری کو احساس ہوتا ہے کہ آپ نے ہر دشت کی خاک چھانی ہے۔تحریر میں مصلح والا انداز پایا جاتا ہے کہ قاری کوئی نہ کوئی نصیحت پائے اور غلط تجربات سے عبرت پکڑے۔ آخر میں آپ کہتے ہیں کہ " انسان کی زندگی کے کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کا خدا کے سوا کوئی گواہ نہیں ہوتا.  ایسے واقعات کو پردے میں رکھنا ہی بہتر ہوتاہے " ۔ جولائی 1992 ء میں اس٘ی سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے اور اپنی آپ بیتی میں سولہ سال کی عمر سے لیکر ساٹھ سال کی عمر تک کے احوال قلم بند کیے۔ آپ کی اس کتاب میں دلچسپی کا خاص عنصر پایا جاتا ہے کہ جب قاری کتاب اٹھا لے تو وہ پوری پڑھے بغیر نہیں رہتا۔قاری محسوس کرتا ہے کہ جیسے وہ خود ان واقعات میں ان کے ہمراہ ہے۔ یہ ہی رائے پوری صاحب کا منفر اسلوب بیان ہے۔

بقول شاعر

ہمارے لہجے میں یہ توازن بڑی صعوبت کے بعد آیا

کئی مزاجوں کے دشت دیکھے، کئی رویوں کی خاک چھانی