موت پر تعزیت کرنا سنتِ رسولﷺ: رسول اللہ ﷺ کا تعزیتی مکتوب ایک صحابی کے نام

موت اٹل حقیقت ہے، جس نے اس دنیا میں آنکھ کھولی ہے ایک مقررہ وقت پر اسے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ جانے والے کی موت پر دکھ اور صدمہ بھی فطری بات ہے۔ لیکن اس صدمے کو برداشت کرنا ور صبر سے کام لینا مطلوب و مقصود ہے۔ میت کے ورثا کے ساتھ ہمدردی کا اظہار اور تسلی دینے کے لیے دوست احباب اور رشتہ داروں کی ذمہ داری ہے۔ تعزیت ایک مسنون عمل ہے اور ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان پر حق بھی ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی سیرت سے سیکڑوں واقعات میں غم زدوں، دکھیاروں اور تکلیف کے ماروں کو تسلی اور ڈھارس بندھاتے سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ذیل میں سیرت رسول ﷺ سے ایک تسلی آمیز خط کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔

رسول اللہ ﷺ کا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے نام تسلی آمیز تعزیتی خط

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ یمن میں گورنر تعینات تھے۔ جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے کا انتقال ہوا تو رسول اللہ نے تعزیتی پیغام ان الفاظ میں لکھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ تعالی کے رسول محمد ﷺ کی طرف سے معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہ) کے نام

تم پر سلامتی ہو، بے شک میں تیری طرف سے اللہ کی طرف تعریف پیش کرتاہوں۔ وہ (اللہ  سبحانہ وتعالیٰ)جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔

حمد باری تعالی کے بعد: اللہ تعالی تجھے بڑا ثواب عطا کرے اور صبر کی توفیق دے۔ ہم (سب)  کو تجھے (خاص طور پر) شکر (کی توفیق) دے۔

بے شک ہمارے نفس ،ہمارے مال ،ہمارے گھر والے اور ہماری اولاد ،عزت اور بُزرگی والے کے خوشگوار عطیات اور ہمارے پاس رکھی ہوئی عاریت( ادھار یا امانت) ہیں۔ ہمیں ایک مقررہ وقت ان کے ذریعے نفع دیا جاتا ہے اور ایک معلوم وقت پر وہ( ان چیزوں کو) اٹھا لیتا ہے۔ پھر اس نے ہمارے اوپر عطیات کے ملنے پر شکر اور آزمائش پر صبر پرفرض کیا ہے۔

(اے معاذ!) بس تیرا بیٹا بھی اللہ کے خوشگوار عطیات اور رکھی ہوئی امانتوں سے تھا۔  اللہ تعالی نے تجھے اس سے رشک اور خوشی کی حالت میں نفع مند کیا اور بہت بڑے ثواب کے بدلے تجھ سے اٹھا لیا۔ وہ ثواب دعا، رحمت اور ہدایت اگر ثواب چاہتے ہو تو صبر کرو اور تیرا رونا دھونا تیرے ثواب کو ضائع نہ کرے پس پشیمانی اٹھاؤ گے اور جان لو کہ رونا پیٹنا کسی چیز کو دور نہیں کر سکتا اور نا ہی غم کو دور کر سکتا ہے جس حادثہ نے اترنا ہے واقع ہوا اور تم پر سلامتی ہو۔"

(حوالہ: کتاب؛حصِن حصِین، مصنف علامہ محمد بن جزری شافعی، مترجم علامہ محمد صدیق ہزاروی،  ص252، ضیاءالقرآن پبلی کیشن )

متعلقہ عنوانات