قومی زبان

ہوائیں چپ تھیں لہکتی جہت پہ کوئی نہ تھا

ہوائیں چپ تھیں لہکتی جہت پہ کوئی نہ تھا پتنگ لوٹ کے آیا تو چھت پہ کوئی نہ تھا بڑے دنوں میں پرندوں سے گفتگو سیکھی پھر انحصار ہمارا لغت پہ کوئی نہ تھا پڑی وہ دھوپ کہ شہزادیاں ٹھہر نہ سکیں وہی تھیں ریشمی سانسیں بنت پہ کوئی نہ تھا وہی رہی سہی باتیں وہی رہے سہے غم تمام شہر میں اپنی ...

مزید پڑھیے

عمر بھر ایک ہی کردار سے ڈر لگتا ہے

عمر بھر ایک ہی کردار سے ڈر لگتا ہے آدمی ہوں مجھے تکرار سے ڈر لگتا ہے آنکھ تھک جاتی ہے چہروں کا تعاقب کرتے تیز چلتا ہوں تو رفتار سے ڈر لگتا ہے چوکھٹے بیچنے والے تری کن رس آواز کھینچ بھی لائے تو بازار سے ڈر لگتا ہے پھر کوئی زخم کہ کچھ دن ہمیں پر کار رکھے عشق کو فرصت بیکار سے ڈر ...

مزید پڑھیے

ہمارا دن کبھی یوں بھی شفق انجام ہو جائے

ہمارا دن کبھی یوں بھی شفق انجام ہو جائے پرندے جھیل پر قبضہ کریں اور شام ہو جائے کسی کا ذکر چھیڑوں استعاروں میں کنایوں میں کوئی سمجھے تو شاید دو گھڑی کہرام ہو جائے تعجب ہے اگر ہر نقش موضوع سخن ٹھہرے تعجب ہے اگر بے چہرگی الزام ہو جائے ہمارے بعد ممکن ہے سخن تکمیل تک پہنچے ہمارے ...

مزید پڑھیے

ڈھونڈھتی ہیں اجنبی پرچھائیاں

ڈھونڈھتی ہیں اجنبی پرچھائیاں کھڑکیوں سے جھانکتی تنہائیاں چن رہی ہے کنج بستر سے نظر عطر میں لپٹی ہوئی انگڑائیاں اک طرف سارا ادب اور اک طرف دیومالائی سی کچھ رسوائیاں دشت جاں میں اس قدر مٹی اڑی بھر گئیں آنکھوں کی گہری کھائیاں رات نکلا تھا سڑک پر گھومنے ننگی بھوکی تھیں کئی ...

مزید پڑھیے

کھینچ لائے گی کوئی مصرعۂ تر آخر کار

کھینچ لائے گی کوئی مصرعۂ تر آخر کار زلف زنجیر سے نازک ہے مگر آخر کار ہر دوراہے پہ کوئی یار بچھڑ جانا ہے کون ادا کرتا ہے تاوان سفر آخر کار کون خورشید کو پلٹائے کہ جنگل سے ادھر مورنی جھاڑ گئی جھیل میں پر آخر کار اڑ کے دیوار شفق سے یہ پرند مہتاب جانے کیا جھانکنے آیا مرے گھر آخر ...

مزید پڑھیے

خنک ہوا میں بڑی شعلہ خیز خوشبو ہے

خنک ہوا میں بڑی شعلہ خیز خوشبو ہے خیال یار چنبیلی کی تیز خوشبو ہے ہوا کے ہاتھ نہ لگ جائے موسموں سے کہو کہ ایک پھول کا سارا جہیز خوشبو ہے چرا گئے ہیں تری انگلیوں کا لوچ حروف عجیب خط ہے عجب عطر بیز خوشبو ہے پرانی یادوں سے صندوقچہ بھرا ہوا ہے سو خوب علم ہے کیوں زیر میز خوشبو ...

مزید پڑھیے

نہال عمر سے بے وقت جھڑنے والوں کو

نہال عمر سے بے وقت جھڑنے والوں کو صبا وداع نہ کرنا بچھڑنے والوں کو اداسیاں بھی مقدس اگر تصرف ہو فراق اذن ہنر ہے اجڑنے والوں کو کہاں اتار گیا سیل رنگ کیا معلوم نئی رتوں میں جڑوں سے اکھڑنے والوں کو گھروں کی یاد دلاتی ہے کسمساتی ہوا دیار غیر میں اجرت پہ لڑنے والوں کو دعا کرو کہ ...

مزید پڑھیے

زمیں کھنکتی رہی اور گھٹا نے کچھ نہ کہا

زمیں کھنکتی رہی اور گھٹا نے کچھ نہ کہا گلی تک آ کے بھی کالی بلا نے کچھ نہ کہا کہاں کہاں پہ درختوں کی چادریں اتریں لگی وہ چپ کہ برہنہ ہوا نے کچھ نہ کہا تمام شب پڑی جذبوں پہ اتنی اوس کہ بس تمام شب خلش دیر پا نے کچھ نہ کہا کہاں بجھے وہ دریچوں سے جھانکتے چہرے پلٹ کے آئی تو باد صبا نے ...

مزید پڑھیے

لفظ

ابھی تسخیر کرنے ہیں وہ لفظ کہ جن کو لکھ کر کتابوں میں پڑھ کر تمناؤں کی ان گنت وادیوں میں بسے اپنے خوابوں میں تعبیر کی کھڑکیاں کھول کر دوسروں پر کھلے اور پھر دوسروں کے لیے مثل جاناں بنے لفظ وہ جن کو صدیوں نے دیکھا جنہیں دیکھ کر ان کو چاہا جنہیں چاہ کر ان کو اپنے گلے سے لگایا یہ سب ...

مزید پڑھیے

فصل نے ہے سخت جوبن پر نظر کے سامنے

فصل نے ہے سخت جوبن پر نظر کے سامنے پھر صلیب اگنے لگی دیوار و در کے سامنے دیر تک میں نے نہیں دیکھی پرندوں کی اڑان دیر تک بیٹھا تھا کوئی میرے گھر کے سامنے وقت مرہم ہے مگر مرہم کا بھی اک وقت ہے رو پڑا ہوں اک پرانے ہم سفر کے سامنے باری باری اپنی مٹی گوندھ کر سب چل پڑے دھول اڑتی جا ...

مزید پڑھیے
صفحہ 576 سے 6203