ہوائیں چپ تھیں لہکتی جہت پہ کوئی نہ تھا

ہوائیں چپ تھیں لہکتی جہت پہ کوئی نہ تھا
پتنگ لوٹ کے آیا تو چھت پہ کوئی نہ تھا


بڑے دنوں میں پرندوں سے گفتگو سیکھی
پھر انحصار ہمارا لغت پہ کوئی نہ تھا


پڑی وہ دھوپ کہ شہزادیاں ٹھہر نہ سکیں
وہی تھیں ریشمی سانسیں بنت پہ کوئی نہ تھا


وہی رہی سہی باتیں وہی رہے سہے غم
تمام شہر میں اپنی صفت پہ کوئی نہ تھا


رہین دل کوئی دکھ تھا لہو کے ساتھ گیا
مرا ادھار کسی سلطنت پہ کوئی نہ تھا


سبھی کو ایک ہی عجلت کہ رسم پوری ہو
بہم تھے لوگ مگر تعزیت پہ کوئی نہ تھا