ہمارا دن کبھی یوں بھی شفق انجام ہو جائے

ہمارا دن کبھی یوں بھی شفق انجام ہو جائے
پرندے جھیل پر قبضہ کریں اور شام ہو جائے


کسی کا ذکر چھیڑوں استعاروں میں کنایوں میں
کوئی سمجھے تو شاید دو گھڑی کہرام ہو جائے


تعجب ہے اگر ہر نقش موضوع سخن ٹھہرے
تعجب ہے اگر بے چہرگی الزام ہو جائے


ہمارے بعد ممکن ہے سخن تکمیل تک پہنچے
ہمارے بعد ممکن ہے محبت عام ہو جائے


رگ جاں کھینچتی ہے پھر کوئی میٹھی کسک طالبؔ
اور ایسے میں اگر اک سانس بھی ناکام ہو جائے