قومی زبان

شرمیلی خاموشی

شام کی شرمیلی چپ کو روح میں محسوس کرتے کام میں مصروف ہیں ہم دوپہر سے دل کی آنکھیں دیکھتی ہیں گہری گہری سبز شاخوں کو جو بیٹھی ہیں خموشی سے کئے خم گردنیں اپنی کسی دلہن کی صورت سر پہ اوڑھے آسماں کی سرمئی چنری ستارے جس میں ٹانکے جا رہے ہیں ہم اپنے اس تصور پر خود ہی مسکا رہے ہیں

مزید پڑھیے

شام کی بارش

کون سے کوہ کی آڑ میں لی خورشید نے جا کر آج پناہ چو طرفہ یلغار سی کی ہے ابر نے بھی تا حد نظر دھیمے چلتے کالے بادل اڑتی سی اجلی بدلی رقصاں رقصاں جھلک دکھا کر رہ جاتی ہے برق کبھی پتوں کے جھرمٹ میں سائے کجلائے شرمائے سے پھول حلیمی سے سر خم اور کلیاں کچھ شرمائی سیں دانستہ بارش میں اڑتے ...

مزید پڑھیے

عیاشی

محبوب کی مانند اٹھلائے معشوق کی صورت شرمائے ہریالی کا آنچل اوڑھے ہر شاخ ہوا میں رقصاں ہے میں پیار بھری نظروں سے انہیں مسکاتی دیکھے جاتی ہوں شاموں میں پیڑوں کو تکنا ہے میری نظر کی عیاشی

مزید پڑھیے

کوئی بات کرو

منہ بسورے یہ شام کھڑکی پر آن بیٹھی ہے دوپہر ہی سے دل کہ جیسے خزاں زدہ پتہ ٹوٹنے کو ہے کوئی بات کرو

مزید پڑھیے

میڈیٹیشن

میڈیٹیشن کچھ نہ سوچوں میں کچھ نہیں سوچوں یوں ہی کھڑکی سے شام کو دیکھوں پر سکوں آسماں خموش درخت سرمئی روشنی ہوا یہ سکوں اپنی نس نس میں منتقل کر لوں دل کی دھڑکن کو روک دوں کچھ پل ایک دفعہ پلک نہیں جھپکوں یوں ہی بیٹھی رہوں جو بے جنبش روح پھر رب سے بات کرتی ہے کتنے ہی کام ساتھ کرتی ...

مزید پڑھیے

پردیس کا شہر

یہ سرمئی بادلوں کے سائے یہ شام کی تازہ تازہ سی رت یہ گاڑیوں کی کئی قطاریں یہ باغ میں سیر کرتے جوڑے یہ بچوں کے قہقہے سریلے وہ دور سے کوکتی کویلیا یہ عکس پانی میں بجلیوں کا چہار جانب ہے شادمانی مگر میں ہوں بے قرار مضطر نہیں ہے اس شہر میں مرا گھر

مزید پڑھیے

منتظر ہے شام

دو جہاں کا حسن لے کر منتظر ہے شام کھڑکی پر شکستہ پرسی نا امید اشک آنکھوں میں بھر کر اس طرح ساکت نہ بیٹھو اک جگہ پر کانچ کو پتھر کی سنگت میں ہی رہنا ہو تو اک رستہ یہ ہے وہ فاصلوں کو درمیاں رکھے سنو یہ زیست ایسی شے نہیں مل پائے گی پھر دو جہاں کا حسن لے کر منتظر ہے شام کھڑکی پر چلو ہلکے ...

مزید پڑھیے

زمانہ ساتھ گزارا اکیلیاں نہ کھلیں

زمانہ ساتھ گزارا اکیلیاں نہ کھلیں اداس ہونے سے پہلے سہیلیاں نہ کھلیں غموں کی دھوپ میں پھر بے نمک ہوئے چہرے نگاہ بجھ گئی رنگوں کی تھیلیاں نہ کھلیں لپٹ کے روئے امر بیل سے در و دیوار پلٹ کے آئے مسافر حویلیاں نہ کھلیں کتاب زیست کے سارے سوال بے معنی جواب الجھنے لگے اور پہیلیاں نہ ...

مزید پڑھیے

غبار وقت میں بے رنگ و بو پڑا ہوا میں

غبار وقت میں بے رنگ و بو پڑا ہوا میں کھڑا ہوں عرصۂ آفاق میں تھکا ہوا میں تری نگاہ نگارش طلب کو کیا معلوم کہ حرف و صوت سے گزرا تو کیا سے کیا ہوا میں نجوم بجھتے ہوئے کہہ رہے ہیں صبح بخیر مگر وہ پلکیں اور ان میں کہیں جڑا ہوا میں یہ دیکھنے کو کہ فطرت کہاں بدلتی ہے وہ روٹھنے ہی لگا ...

مزید پڑھیے

لہر ٹوٹی ہے کہ آئنۂ مہتاب میں ہم

لہر ٹوٹی ہے کہ آئنۂ مہتاب میں ہم چاند چمکا تو پڑے رہ گئے تالاب میں ہم قوس کے رنگ چرا لائیں گے اور آئیں گے پیرہن بننے کو فرصت سے ترے خواب میں ہم کوئی بے نام ہوا فصل بدن کیوں کاٹے لہلہاتے نہیں ہر خطۂ شاداب میں ہم ساحلوں پر کھڑے لوگوں کی نظر سے دیکھو ایک کشتی میں ہیں اور ایک ہی ...

مزید پڑھیے
صفحہ 575 سے 6203