عمر بھر ایک ہی کردار سے ڈر لگتا ہے

عمر بھر ایک ہی کردار سے ڈر لگتا ہے
آدمی ہوں مجھے تکرار سے ڈر لگتا ہے


آنکھ تھک جاتی ہے چہروں کا تعاقب کرتے
تیز چلتا ہوں تو رفتار سے ڈر لگتا ہے


چوکھٹے بیچنے والے تری کن رس آواز
کھینچ بھی لائے تو بازار سے ڈر لگتا ہے


پھر کوئی زخم کہ کچھ دن ہمیں پر کار رکھے
عشق کو فرصت بیکار سے ڈر لگتا ہے


کون کس وقت بدل جائے خدا جانتا ہے
خلق اور خلق کے معیار سے ڈر لگتا ہے


دل ہے ملبے سے چرایا ہوا زیور طالبؔ
بک بھی جائے تو خریدار سے ڈر لگتا ہے