یوں درختوں کی ہے بھر مار پرندے نہیں ہیں
یوں درختوں کی ہے بھر مار پرندے نہیں ہیں
کہا جاتا ہے کہ اس پار پرندے نہیں ہیں
جو پرندہ ہے وہ تھک ہار کے بیٹھا ہوا ہے
اور جو اڑنے کو ہیں تیار پرندے نہیں ہیں
شاخ جمہور پہ امروز جو قابض ہیں یہاں
بلیاں ہیں وہ خبردار پرندے نہیں ہیں
آ رہے ہیں نا کہا نا کہ ہیں رستے میں ابھی
ہم بھی انسان ہی ہیں یار پرندے نہیں ہیں
چگ رہے ہیں کسی پردیس میں دانہ دنکا
موسم گل میں بھی اس بار پرندے نہیں ہیں
تجھ سماعت کی منڈیروں پہ چہکتے لیکن
میرے اشعار ہیں اشعار پرندے نہیں ہیں
بڑی آسانی سے اف دام میں آ جاتے ہیں یہ
باغ دل میں مرے ہشیار پرندے نہیں ہیں