بڑا ہشیار ہونے لگ گیا تھا
بڑا ہشیار ہونے لگ گیا تھا
مرا غم خوار ہونے لگ گیا تھا
مری ان سوئی آنکھوں میں اچانک
کوئی بے دار ہونے لگ گیا تھا
گماں کے بازوؤں کو کاٹ ڈالا
علمبردار ہونے لگ گیا تھا
مری حسرت نہ نکلی ڈوبنے کی
بھنور پتوار ہونے لگ گیا تھا
بڑی مشکل سے چھوڑی حق بیانی
ذلیل و خوار ہونے لگ گیا تھا
ادھوری چھوڑ دی آخر کہانی
میں خود کردار ہونے لگ گیا تھا
میں ٹوٹا بھی نہیں تھا اور نیازیؔ
جہاں معمار ہونے لگ گیا تھا