بھیڑ میں خود کو گنوانے سے ذرا سا پہلے
بھیڑ میں خود کو گنوانے سے ذرا سا پہلے
مجھ کو ملتا وہ زمانے سے ذرا سا پہلے
ہجر کی ہم کو کچھ ایسی بری عادت ہے کہ ہم
زہر کھا لیں ترے آنے سے ذرا سا پہلے
گرچہ پکڑے نہ گئے دوستو لیکن ہم بھی
چور تھے شور مچانے سے ذرا سا پہلے
کچھ نہیں سوچا پرندوں سے شجر چھین لئے
دشت میں شہر بسانے سے ذرہ سا پہلے
دھول تھے تم مرے قدموں سے لپٹنے پہ مصر
خاک تھے چاک پہ جانے سے ذرہ سا پہلے
جائے عبرت ہے کہ پھوٹیں نہ تمہاری آنکھیں
مجھے یوں آنکھ دکھانے سے ذرا سا پہلے