ویسے تو سارے لوگ ہی پانی کے ہو رہے
ویسے تو سارے لوگ ہی پانی کے ہو رہے
ان میں سے کچھ ہی لوگ روانی کے ہو رہے
چلنے لگے تو نقل مکانی کے ہو رہے
ان میں سے ہم نہیں ہیں جو نانی کے ہو رہے
دن بھر رہے نثار چمن میں گلاب پر
ڈھلتے ہی شام رات کی رانی کے ہو رہے
سوز و گداز شوق و ہوس جرأت و جنوں
کردار میرے اس کی کہانی کے ہو رہے
ہم کو ہماری تیز روی نے کیا ہلاک
بچپن میں ہی تو تھے کہ جوانی کے ہو رہے
میں بے لباس تھا مری چادر تھے میرے شعر
صورت حرام سارے معانی کے ہو رہے
تسلیم دوستوں نے دیا اس قدر فریب
مجبور ہو کے دشمن جانی کے ہو رہے