قومی زبان

حبس جب حد سے بڑھا جسم کے ویرانے میں

حبس جب حد سے بڑھا جسم کے ویرانے میں روح نے بین کیا دل کے عزا خانے میں ہائے وہ رنگ جو ابھرا مری بے دھیانی سے ہائے وہ نقش جو بنتا گیا انجانے میں اب کوئی حرف و معانی کی خبر کیا لائے اب کہانی ہی کہاں ہے مرے افسانے میں کوئی گتھی نہ کھلی ایک بھی عقدہ نہ کھلا مسئلہ اور الجھتا گیا ...

مزید پڑھیے

ایک سناٹا سا تقریر میں رکھا گیا تھا

ایک سناٹا سا تقریر میں رکھا گیا تھا خواب ہی خواب کی تعبیر میں رکھا گیا تھا آگہی روز ڈراتی رہی منزل سے مگر حوصلہ پاؤں کی زنجیر میں رکھا گیا تھا کون بسمل تھا بتا ہی نہیں سکتا کوئی زخم دل سینۂ شمشیر میں رکھا گیا تھا ساز و آواز کے ملنے سے اثر ہونے لگا تیرا لہجہ مری تحریر میں رکھا ...

مزید پڑھیے

اس آئنے سے نکل اور خود کو تنہا کر

اس آئنے سے نکل اور خود کو تنہا کر کبھی تو سامنے آ کے کوئی تماشا کر میں دور ہوتی چلی جا رہی ہوں مرکز سے مجھے سمیٹ مرے دائرے کو چھوٹا کر ہجوم کذب و ریا سے بچا لے آ کے ذرا وجود صدق و صفا میں مجھے اکیلا کر ہر ایک بات بیاں کرنے کی نہیں ہوتی جو ان کہی رہے اس بات کو بھی سمجھا کر نہیں ...

مزید پڑھیے

ہمیں لکھا بھی اگر حاشیے میں رکھا گیا

ہمیں لکھا بھی اگر حاشیے میں رکھا گیا نظر نہ آئے جو اس زاویے میں رکھا گیا ترے نصیب میں منزل کبھی نہ آئے گی سفر تمام طرح دائرے میں رکھا گیا ہوا کو یہ بھی بتایا کہ روشنی ہے کہاں چراغ کو بھی ترے راستے میں رکھا گیا انا کے نام پہ جب بن گیا صنم خانہ خدا کو لا کے وہاں بت کدے میں رکھا ...

مزید پڑھیے

راز کا بزم میں چرچا کبھی ہونے نہ دیا

راز کا بزم میں چرچا کبھی ہونے نہ دیا ہم نے اپنے کو تماشا کبھی ہونے نہ دیا ہم کو اس گردش دوراں نے کہیں کا نہ رکھا پھر بھی لہجے کو شکستہ کبھی ہونے نہ دیا مے کدے میں بڑے کم ظرف تھے پینے والے آنکھ کو ساغر و مینا کبھی ہونے نہ دیا دل میں اک درد کا طوفان چھپائے رکھا آنکھ سے راز کو افشا ...

مزید پڑھیے

ہم سے آشفتہ مزاجوں کا پتا پوچھتی ہے

ہم سے آشفتہ مزاجوں کا پتا پوچھتی ہے کتنے باقی ہیں دیے روز ہوا پوچھتی ہے روز کلیوں کو کھلاتے ہوئے کرتی ہے سوال کیسی دامن کی مہک ہے یہ صبا پوچھتی ہے کس جگہ تجھ کو ٹھہرنا ہے تمنائے جہاں لڑکھڑاتے ہوئے یہ لغزش پا پوچھتی ہے تشنگی اور ہے صحرائے تمنا کتنی جو برستی نہیں کھل کے وہ گھٹا ...

مزید پڑھیے

ہماری قربتوں میں فاصلہ نہ رہ جائے

ہماری قربتوں میں فاصلہ نہ رہ جائے قدم سے لپٹا ہوا راستہ نہ رہ جائے ہوائے وحشت دل تیز چل رہی ہے بہت ردائے ہجر مرا سر کھلا نہ رہ جائے خدا کے نام پہ جس طرح لوگ مر رہے ہیں دعا کرو کہ اکیلا خدا نہ رہ جائے یہ لوگ کس لئے اپنے طواف میں ہیں مگن صنم کدے میں مصلیٰ بچھا نہ رہ جائے طنابیں ...

مزید پڑھیے

مریض عشق کا بہت عجیب حال ہو گیا

مریض عشق کا بہت عجیب حال ہو گیا عجیب حال ہو گیا تو پھر وصال ہو گیا وہ کہہ رہا تھا زندگی گزارنا محال ہے وہ اب یہ کہہ رہا ہے یار کیا کمال ہو گیا میں شدت بیان سے نکل سکوں تو پھر کہوں یہ میرا لہجۂ سکوت بے مثال ہو گیا بہت ہوا تو یہ ہوا فریب آرزو یہاں طلب کے آئنے پہ عکس پر جمال ہو ...

مزید پڑھیے

سب یہاں دھوکہ ہے ہم تم کچھ نہیں

سب یہاں دھوکہ ہے ہم تم کچھ نہیں زندگی میں ہیں سبھی غم کچھ نہیں کھیلتے ہیں کرب کے طوفان سے جانتے ہیں ہم تبسم کچھ نہیں خوں اگلتا زندگی کا ساز ہے جس کو کہتے ہیں ترنم کچھ نہیں ایک پل میں روح رخصت ہو گئی جسم کے اندر تصادم کچھ نہیں موت نے لوٹی ہے میری زندگی خوں کی موجوں میں تلاطم کچھ ...

مزید پڑھیے

آہوں کے بسیرے ہیں ارمانوں کی بستی ہے

آہوں کے بسیرے ہیں ارمانوں کی بستی ہے کہتے ہیں جسے ہستی ادھ سلجھی پہیلی ہے ناوک تری باتوں کے کچھ ایسے لگے دل پر اب سانس بھی لیتا ہوں تو روح نکلتی ہے افلاک پہ ہوتا ہے کس بات کا ہنگامہ بادل جو گرجتا ہے بجلی جو تڑپتی ہے ٹپکن کو وہی سمجھے زخموں سے جو کھیلا ہو کیا جانے مصیبت تو جو مجھ ...

مزید پڑھیے
صفحہ 526 سے 6203