سب یہاں دھوکہ ہے ہم تم کچھ نہیں
سب یہاں دھوکہ ہے ہم تم کچھ نہیں
زندگی میں ہیں سبھی غم کچھ نہیں
کھیلتے ہیں کرب کے طوفان سے
جانتے ہیں ہم تبسم کچھ نہیں
خوں اگلتا زندگی کا ساز ہے
جس کو کہتے ہیں ترنم کچھ نہیں
ایک پل میں روح رخصت ہو گئی
جسم کے اندر تصادم کچھ نہیں
موت نے لوٹی ہے میری زندگی
خوں کی موجوں میں تلاطم کچھ نہیں
بجھ گئی امید کی کرنیں سبھی
مہر کو اب ماہ و انجم کچھ نہیں
زندگی توقیرؔ ایسا ہے پرند
جس کے پر ہیں چونچ اور دم کچھ نہیں