مرے چارہ گر تجھے کیا خبر، جو عذاب ہجر و وصال ہے
مرے چارہ گر تجھے کیا خبر، جو عذاب ہجر و وصال ہے یہ دریدہ تن یہ دریدہ من تری چاہتوں کا کمال ہے مجھے سانس سانس گراں لگے، یہ وجود وہم و گماں لگے میں تلاش خود کو کروں کہاں مری ذات خواب و خیال ہے وہ جو چشم تر میں ٹھہر گیا وہ ستارہ جانے کدھر گیا نہ نشاط غم کا ہجوم اب نہ ہی سبز یاد کی ڈال ...