آہوں کے بسیرے ہیں ارمانوں کی بستی ہے

آہوں کے بسیرے ہیں ارمانوں کی بستی ہے
کہتے ہیں جسے ہستی ادھ سلجھی پہیلی ہے


ناوک تری باتوں کے کچھ ایسے لگے دل پر
اب سانس بھی لیتا ہوں تو روح نکلتی ہے


افلاک پہ ہوتا ہے کس بات کا ہنگامہ
بادل جو گرجتا ہے بجلی جو تڑپتی ہے


ٹپکن کو وہی سمجھے زخموں سے جو کھیلا ہو
کیا جانے مصیبت تو جو مجھ پہ گزرتی ہے


اک جسم تھا جو میرا وہ خاک ہوا کب کا
اک روح بچی تھی جو اب وہ بھی پگھلتی ہے


گردش میں ہر اک شے ہے کیا ڈھونڈھ رہے ہیں سب
کیوں وقت پھسلتا ہے کیوں عمر سرکتی ہے


کافر کے لئے جیسے دنیا ہی میں جنت ہو
مومن کے لئے دنیا اک کانٹوں کی بستی ہے


انساں کو لبھاتی ہے دنیا کی ہے رنگینی
باہر سے چمکتی ہے اندر سے جھلستی ہے


جب وقت بگڑتا ہے انسان کا دنیا میں
دنیا بھی نظر اپنی اک پل میں بدلتی ہے


ہے کس کی حرارت سے تپتی ہیں مری سانسیں
سینے میں مرے جیسے اک آگ سلگتی ہے


افلاک اگلتا ہے روحوں کے سمندر کو
توقیرؔ زمیں سب کے جسموں کو نگلتی ہے