عالم مثال
تیرے رخ کی ضیا میں یہ آنکھیں کھو تو سکتی ہیں سو نہیں سکتیں
تیرے رخ کی ضیا میں یہ آنکھیں کھو تو سکتی ہیں سو نہیں سکتیں
مقصد کی آنکھ کا نور آخر ہماری نیتوں میں ہی چمکتا ہے منجمد ہونے کے ڈر سے مجھے آنے والے مہمانوں کا انتظار زیادہ کرنا ہوگا میری حلاوت میری رگوں میں مچل رہی ہے ایک مٹھاس بھری گھلاوٹ جو حلق پر لذت کی دستک دیتی ہے میں فریج میں پڑی اپنی کروٹوں میں اترا رہی ہوں جس کے نقوش بلوریں بوتل پر ...
خود پرستی کا نشہ مجھ کو چڑھا ہے آج کل شوق تجھ سا ہونے کا مجھ کو ہوا ہے آج کل کل تلک تھا جو وفا کی سلطنت کا پیشوا شور اس کی بے وفائی کا بپا ہے آج کل باغباں تو کچھ سوالوں کی اجازت دے مجھے کس کی غفلت سے چمن اجڑا پڑا ہے آج کل دب گئی ہے روبرو قاضی کی چیخوں کی صدا رہزنوں کو منصفوں کا ...
تو مری جستجو مسلسل ہے شامل گفتگو مسلسل ہے مجھ پہ طاری خمار کی گھڑیاں تو مرے روبرو مسلسل ہے ذرہ ذرہ گواہی دیتا ہے جا بجا تو ہی تو مسلسل ہے عشق مجھ کو اڑائے پھرتا ہے چاکری کو بہ کو مسلسل ہے اک معطر فضا رچی مجھ میں بس گیا مجھ میں تو مسلسل ہے وجد طاری عروسہؔ سانسوں پر شش جہت ہو ہی ...
رنج و الم ستائے تو کہتی ہوں میں غزل فرقت جو جاں جلائے تو کہتی ہوں میں غزل چپ چاپ سونی رات میں یادوں کا رقص ہو دل شور جب مچائے تو کہتی ہوں میں غزل دھڑکن کا زور ٹوٹے کہ جذبے ہوں قید میں جب جان پھڑپھڑائے تو کہتی ہوں میں غزل کوئی نہیں ہے آسرا دنیا میں اب مرا پر رب جو یاد آئے تو کہتی ...
بہت سے لوگ ہوتے ہیں جنہیں کہنا جنہیں سننا نہیں آتا صدائیں اپنے پہلو کو جھٹک کر کان میں آواز بھرتی ہیں صداؤں کے کٹہرے سے کئی باغی ہمیشہ بھاگ جاتے ہیں میں اپنے وقت کی باغی صدا ہوں اور میرا نام عظمیٰ ہے مجھے نقویؔ بھی کہتے ہیں مجھے حرف ضیا پر جگنوؤں سے داد ملتی ہے مرا ادبی نسب ...
آج روز گریہ ہے چمچاتی آنکھوں سے اک جہان برسے گا روگ درد اور یہ غم درمیان برسے گا میری بے نوائی پر خاکدان برسے گا اور بے گناہی پر آسمان برسے گا
کس قدر گراں ٹھہری موسموں کے ساحل پر آر پار ہوتی دھند آئینے کی قاتل ہے شام میں نکلتی دھند دل ذرا سا بوجھل تھا اس پہ آن ٹھہری ہے پھر سے یہ اکہری دھند آنکھ روزنوں پر ہے کس طرح اتاروں گی وسوسوں کی پھیلی دھند ایک زرد بارش میں اور نیند لائے گی خواب کی سنہری دھند
پوری بات کہنے کی کب مجھے اجازت ہے پوری بات سننے کی آپ کو کیا ضرورت ہے آپ علم کے داعی آپ سوچ کے رہبر آپ ہی محبت کے قاعدے بناتے ہیں آپ ہی رفاقت کے سب ہنر بتاتے ہیں آپ کے تبسم کو میں نے گر کبھی کھوجا پچھلے کتنے جنموں کے عشق کے کھنڈر نکلے آنجناب کے سارے درد معتبر نکلے آپ مسکراتے ہیں ...
اے مری جبیں سائی میرے زرد سجدوں کا تو ہی کچھ بھرم رکھ لے خشک سرد جنگل میں نارسا ارادوں سے میں کہاں خدا ڈھونڈوں