رنج و الم ستائے تو کہتی ہوں میں غزل

رنج و الم ستائے تو کہتی ہوں میں غزل
فرقت جو جاں جلائے تو کہتی ہوں میں غزل


چپ چاپ سونی رات میں یادوں کا رقص ہو
دل شور جب مچائے تو کہتی ہوں میں غزل


دھڑکن کا زور ٹوٹے کہ جذبے ہوں قید میں
جب جان پھڑپھڑائے تو کہتی ہوں میں غزل


کوئی نہیں ہے آسرا دنیا میں اب مرا
پر رب جو یاد آئے تو کہتی ہوں میں غزل


اس کے وجود سے مری روشن ہے کائنات
بیٹی جو مسکرائے تو کہتی ہوں میں غزل


یوں تو عروسہؔ ضبط سے واقف ہوں میں مگر
جب اشک جھلملائے تو کہتی ہوں میں غزل