سفید سفر

کس قدر گراں ٹھہری
موسموں کے ساحل پر
آر پار ہوتی دھند
آئینے کی قاتل ہے
شام میں نکلتی دھند
دل ذرا سا بوجھل تھا
اس پہ آن ٹھہری ہے
پھر سے یہ اکہری دھند
آنکھ روزنوں پر ہے
کس طرح اتاروں گی
وسوسوں کی پھیلی دھند
ایک زرد بارش میں
اور نیند لائے گی
خواب کی سنہری دھند