قومی زبان

لڑ جاتے ہیں سروں پہ مچلتی قضا سے بھی

لڑ جاتے ہیں سروں پہ مچلتی قضا سے بھی ڈرتے نہیں چراغ ہمارے ہوا سے بھی برسوں رہے ہیں رقص کناں جس زمین پر پہچانتی نہیں ہمیں آواز پا سے بھی اب اس کو التفات کہوں میں کہ بے رخی کچھ کچھ ہیں مہرباں سے بھی کچھ کچھ خفا سے بھی چھپ کر نہ رہ سکے گا وہ ہم سے کہ اس کو ہم پہچان لیں گے اس کی کسی اک ...

مزید پڑھیے

کر اپنی بات کہ پیارے کسی کی بات سے کیا

کر اپنی بات کہ پیارے کسی کی بات سے کیا لیا ہے کام بتا تو نے اس حیات سے کیا یہاں تو جو بھی ہے راہی ہے بند گلیوں کا نکل کے دیکھا ہے کس نے حصار ذات سے کیا تھی بند بند بہت گفتگوئے یار مگر کھلے ہیں عقدۂ دل اس کی بات بات سے کیا وہ چپ لگی ہے کہ ہنستا ہے اور نہ روتا ہے یہ ہو گیا ہے خدا جانے ...

مزید پڑھیے

ہو کے اس کوچے سے آئی تو ستم ڈھا گئی کیا

ہو کے اس کوچے سے آئی تو ستم ڈھا گئی کیا کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ صبا پا گئی کیا یہ وہی میرا نگر ہے تو مرے یار یہاں ایک بستی مرے پیاروں کی تھی کام آ گئی کیا میری سرحد میں غنیموں کا گزر کیسے ہوا تھی سروں کی وہ جو دیوار کھڑی ڈھا گئی کیا یوں تو کہنے کو بس اک موج تھی پانی کی مگر دیکھنا ...

مزید پڑھیے

ہندو اور مسلمان

فخر وطن ہیں دونوں اور دونوں مقتدر ہیں ہیں پھول اک چمن کے اک نخل کے ثمر ہیں اے قوم تیرے دکھ کے دونوں ہی چارہ گر ہیں دونوں جگر جگر ہیں لیکن دگر دگر ہیں آپس کے تفرقوں سے ہیں آہ خار دونوں اغیار کی نظر میں ہیں بے وقار دونوں مل کر چلو کہ آخر دونوں ہو بھائی بھائی بھائی سے کیا لڑائی بھائی ...

مزید پڑھیے

بسنت اور ہولی کی بہار

ساقی کچھ آج تجھ کو خبر ہے بسنت کی ہر سو بہار پیش نظر ہے بسنت کی سرسوں جو پھول اٹھی ہے چشم قیاس میں پھولے پھلے شامل ہیں بسنتی لباس میں پتے جو زرد زرد ہیں سونے کے پات ہیں صدبرگ سے طلائی کرن پھول مات ہیں ہیں چوڑیوں کی جوڑ بسنتی کلائی میں بن کے بہار آئی ہے دست حنائی میں مستی بھرے ...

مزید پڑھیے

جان اسے چلانے میں اہرمن کی کھپتی ہے

جان اسے چلانے میں اہرمن کی کھپتی ہے رات دن مگر دنیا نام تیرا جپتی ہے روشنی کے جلوے ہیں پھلتے پھولتے جنگل جن کی چھتر چھایا میں تیرگی پنپتی ہے گونج سی یہاں شب بھر تم جو روز سنتے ہو دشت کی پناہوں میں خامشی تڑپتی ہے کیا کہا کہو تو پھر دھیان حسن سیرت کا اے میاں مری مانو چھاپ لو جو ...

مزید پڑھیے

رہے خرام سلامت ندی کے دھاروں کا

رہے خرام سلامت ندی کے دھاروں کا نکل نہ جائے کہیں دم مگر کناروں کا تھا اضطراب و تمنائے دید گل کا کرم بہت کٹھن تھا سفر ورنہ خارزاروں کا ستا رہی ہے دل شب کو کل کے چاند کی یاد اڑا اڑا سا ہے کچھ آج رنگ تاروں کا جو خوش ہے ایک تو اس کی وفا کے چرچے ہیں دکھائے دل وہ جہاں میں بھلے ہزاروں ...

مزید پڑھیے

ہیں سارے جرم جب اپنے حساب میں لکھنا

ہیں سارے جرم جب اپنے حساب میں لکھنا سوال یہ ہے کہ پھر کیا جواب میں لکھنا برا سہی میں پہ نیت بری نہیں میری مرے گناہ بھی کار ثواب میں لکھنا رہا سہا بھی سہارا نہ ٹوٹ جائے کہیں نہ ایسی بات کوئی اضطراب میں لکھنا یہ اتفاق کہ مانگا تھا ان سے جن کا جواب وہ باتیں بھول گئے وہ جواب میں ...

مزید پڑھیے

باہر باہر سناٹا ہے اندر اندر شور بہت

باہر باہر سناٹا ہے اندر اندر شور بہت دل کی گھنی بستی میں یارو آن بسے ہیں چور بہت یاد اب اس کی آ نہ سکے گی سوچ کے یہ بیٹھے تھے کہ بس کھل گئے دل کے سارے دریچے تھا جو ہوا کا زور بہت موجیں ہی پتوار بنیں گی طوفاں پار لگائے گا دریا کے ہیں بس دو ساحل کشتی کے ہیں چھور بہت میں بھی اپنی ...

مزید پڑھیے

چلو تجویز کرتے ہیں

کسے تعمیر ہونا ہے کسے مسمار رہنا ہے کسے خواب مسلسل کی فضا بندی میں جینا ہے کسے نیندوں سے ہٹ کر آنسوؤں سے ہجر کو آسان کرنا ہے کسے خاموش رہنا ہے کسے اعلان کرنا ہے

مزید پڑھیے
صفحہ 503 سے 6203