خود پرستی کا نشہ مجھ کو چڑھا ہے آج کل
خود پرستی کا نشہ مجھ کو چڑھا ہے آج کل
شوق تجھ سا ہونے کا مجھ کو ہوا ہے آج کل
کل تلک تھا جو وفا کی سلطنت کا پیشوا
شور اس کی بے وفائی کا بپا ہے آج کل
باغباں تو کچھ سوالوں کی اجازت دے مجھے
کس کی غفلت سے چمن اجڑا پڑا ہے آج کل
دب گئی ہے روبرو قاضی کی چیخوں کی صدا
رہزنوں کو منصفوں کا آسرا ہے آج کل
عکس تیرا ایک پل بھی آنکھ سے اوجھل نہ ہو
دیکھ میرے عشق کی یہ انتہا ہے آج کل
گھر بنا لو تم عروسہؔ اور کسی دنیا میں اب
دہر میں جینے کا مطلب حادثہ ہے آج کل