وہ ہم خیال نہیں پھر بھی ساتھ چلتا ہے
وہ ہم خیال نہیں پھر بھی ساتھ چلتا ہے یہی تضاد تو جیون میں رنگ بھرتا ہے میں اس کی رائے سے کچھ اتنا مطمئن بھی نہیں مہر بہ لب ہوں کہ سکہ اسی کا چلتا ہے میں اک چراغ تھا طوفاں سے دوستی کر لی خرد نہ سمجھے اسے پر جنوں سمجھتا ہے یزید مورچہ جیتا تھا جنگ ہارا تھا یہ سچ رگوں میں مرے انقلاب ...